Saturday 27 September 2014

امید

فواد علی خلیل )شریک دورہ حدیث(
امید
     
     جب تنہائی میں بیٹھ کر اپنے قلم کو جنبش دینے کی کوشش کی ،اورموضوعات کا ایک سمند ر ذہن میں گھومنے لگا ،کبھی معاشرتی برائیوں کو اجاگر کرنے کا ارادہ کیا ۔توکبھی اپنے ارباب اقتدار کو احساس دلانے کی آرزو کی ۔لیکن جب امت مرحومہ کے موجودہ احوال ومقام پر نظر دوڑائی ،توساتھ ہی ساتھ امت کا نقشہ اپنے دل ودماغ میں متصور کیا۔تونہ جانے کیوں عجیب فرق آیا ۔کہ وہ بھی امت تھی ۔کہ اقوام غیر امن کی خاطر مسلمانوں کے دامن میں پناہ لیتی تھیں ۔ جبکہ آج میں مشاہدہ کررہا ہوں ،کہ خود ہر شخص ایک دوسرے کو شک کی نگا ہ سے دیکھ رہا ہیں ۔
          کاش ! اگر اب بھی ہم نے اپنی حالت زار پر نظر نہ دوڑائی توہماری بدقسمتی ہی تصور کرلی جائیگی ۔ہم کو آج اپنے گھر سے بے در کیا جارہا ہیں کبھی وطن سے نکالا جاتا ہے توکبھی اپنے وطن ہی میں ہم کو غیروں کے حوالے کیا جاتاہیں ۔لیکن اگر یوں کہا جائے کہ صرف مملکت پاکستان ہی اس کا نشانہ نہیں بلکہ پوری دنیامیں جہاں بھی امت مرحومہ کا وجود ہیں۔وہاں ان پر مظالم ، بربریت اوروحشت کانہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا گیا ہیں ۔ہر طرف مسلمان شکا ر اورنشانہ پر ہیں اورشکاری اپنے چالوں کو بدل بدل کر اپنے حربیں استعمال کررہاہیں اورخون کی ندیا ں بہائی جارہی ہے لیکن انکی حالات پر کیا رویا جائے ۔ہم توخود ظالم اورظالموں کے ہاتھوں یرغمال ہوچکے ہیں ہماری حالت خود قابل رحم ہے ۔ہم خود بھٹکے مسافروں کی مانند ہوچکے ہیں ۔ہمیں تواپنوں نے ہی سرعام بازاررسوا کیا ان حالات کی منظر کشی شاعر نے بہت نرالے انداز میں بیان فرمائی ہیں ۔
ہمیں تواپنوں نے لوٹا غیر وں میں کیا دم تھا
 میری کشتی جہاں ڈ وبی وہاں پانی ہی بہت کم تھا
          لیکن ان حالات وواقعات کے باوجود امت مسلمہ کو مایوسی کے دلدل میں نہیں ڈوبنا چاہیے ، بلکہ ماضی کے تلخیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے بلند مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرنی چاہیے اورخو د میدان شہسوار بن کر دنیائے عالم کو دکھانا چاہیے ۔کہ جو امت ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل پر اسلام کا بول بالا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔جو امت ٦٠٠سال تک خلافت عثمانیہ کی صورت میں زمام اقتدارکو احسن طریقہ سے نبھا سکتی ہیں ،اس امت کے فرزدند آج بھی روئے زمین پر موجود ہے امت کے تعلیمات حسنہ آج بھی موجود ہے ۔اگر چہ قلت میںکیوں ہی نہ ہو ۔اور وہ وقت دور نہیں کہ امت مسلمہ اپنے مسیحا کے ہاتھ پر بیعت کرکے منازل کی طرف رواں دواں ہوگی ۔اورمسلمانوںکو پھر سے امن وخوشحالی کا سہرہ دیکھنا نصیب ہوگا ۔اور غمزدہ امت کو پھر سے نوید سحر ککیی صورت میںدیکھنا حاصل ہو۔امت کے اس حالت کی طرف اقبال نے اشارہ کیاہیں ۔
نہیں ہیں ناآمید اقبال اپنی کشت ویراں پر
 ذرا نم ہو تویہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
          اس منزل کو پانے کیلئے ہمیں بھی کچھ اپنی زمہ داری کا احساس کرنا پڑے گا،اسلامی تعلیمات کو اپنی اوراپنے ماتحتوں کی زندگی میں رائج کرنا پڑیگا ۔ اوراللہ تعالیٰ کی نافرمانی کو چھوڑکر اپنے آپ کو عبدیت کے سانچیں میں ڈالنا ہوگا ،اپنے رب کریم کے حضور گڑگڑاکر دعاوں کا خوب اہتمام کرنا ہوگا ،اورشاعر مشرق کہ اس شعر کو پڑھتے ہوئے آگے چلنا پڑے گا ۔

ارادے جن کے پختہ ہونظر جنکی خدا پر ہوں

 طلاطم خیز موجو ں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے 

No comments:

Post a Comment