Saturday, 27 September 2014

دیوبند ثانی

                                                                                                                                ابن نصیب خان جلالی(شریک دورہ حدیث)

دیوبند ثانی
            
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔اسلام نے اسلامی تعلیمات (علوم نبویہ) کے حصول پر بہت زور دیا ھے ۔آپ نے

اطلبواالعلم من المہد الی اللحد……طلب العلم فریضة علیٰ کل مسلم۔

ارشاد فرماکر ان علوم کے حاصل کرنے کی ترغیب دی ۔اور کہیں پر العلماء ورثة الانبیاء ''کہہ کر ان علوم کا ثمرہ بتا یااور ان علوم ہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کی تقسیم کی اور فرمایا'

'قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون'

'۔یعنی اس علم کی وجہ سے عالم کو دوسرے لوگوں پر اس طرح فوقیت حاصل ہے جس طرح چاند کو ستاروں پر۔
            ان علوم نبویہ کے حصول کیلئے مختلف اسباب /طرق ہوتے ہیں ۔اور ان میں ایک سبب /طریقہ مدارس ہیں۔اگر یہ سلسلہ آپ کے زمانے میں اصحاب الصفہ کی شکل میں موجود تھا تو آج دارالعلوم حقانیہ کی صورت میں زندہ وتابندہ ہے ۔جامعہ دارالعلوم حقانیہ کی بنیاد ١٩٤٧ء کو شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق صاحب نے رکھی اور اب ایک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی شکل اختیارکرگئی ہے۔
            جامعہ ھذا نے علوم نبویہ کیساتھ ایسی شخصیات بھی امت مسلمہ کو مہیا کئے ہیں جو معاشرہ میں اسلامی تعلیمات کی صحیح ترجمانی کررہے ہیں ۔اور اس کے سا تھ ہیص ہر قسم کے اسلامی شعبوں کیلئے مضبوط رجال باکردار فراہم کئے ہیں۔اگرمیدان سیاست میں امت مسلمہ کی حقوق کی جنگ لڑنے والا اور مدارس دینیہ کا محافظ بن کرکھڑا ہے تو حقانیہ کا سپوت مولانا فضل الرحمن صاحب کی شکل میں ہے۔ اس پُرفتن او دجالی میڈیا کی دور میں عمرفاروق اور عمر بن عبدالعزیز کی جھلک دکھانے والا افغانستان کا بت شکن امیرالمؤمنین ملامحمد عمر مجاہد حفظہ اللہ بھی حقانیہ کا فرزند ارجمند ہے۔اگر باطل قوتوں کیساتھ افغانستان کے محاذوں پر اسلام کا جھنڈا لہرانے والا ہے تو وہ بھی حقانیہ کا فاضل ہی ہے۔اگر علمی کارناموں کی طرف دیکھاجائے تو سب سے خوشبودار پھول شیخ الحدیث مولاناسمیع الحق صاحب مدظلہ کی شکل میں نظر آتا ہے ،فتاویٰ حقانیہ اور فتاویٰ فریدیہ کی تصنیف جامعہ کی وجود مسعود ہی کی وجہ سے معرض وجود میں ائی ہیں۔

            الحمد للہ آج یہ ادراہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہاہے اور اسکی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔

No comments:

Post a Comment