Saturday 27 September 2014

مذہبی فرقہ واریت ... ایک جائزہ

محمد ایو ب بن انور خان) شریک دورہ حدیث(
مذہبی فرقہ واریت ... ایک جائزہ
          
  فرقہ واریت دور حاضر کا ایک نعرہ اوراصلاح ہے جو بار بار اٹھایا جا رہا ہے یوں تو فرقہ واریت کے مختلف انواع ہیں جس نے نہ صرف عالم اسلام بلکہ بنی نوع انسان کو اپنے لپیٹ میں لیا ہے ۔ فرقہ واریت کے انواع و اقسام میں وطنی فرقہ واریت ، سیاسی فرقہ واریت ،مالی فرقہ واریت، تنظیمی فرقہ واریت ،تعلیمی فرقہ واریت (طبقاتی نظام تعلیم ) قانونی فرقہ واریت اور مذہبی فرقہ واریت شامل ہیں ان متنوع فرقہ واریت نے ہمارے گردو پیش کو متاثر کیا ہے یہاں تک کہ دنیا کا کوئی بھی خطہ ، وطن اور ریاست کسی نہ کسی درجے میں کسی بھی فرقہ واریت کے شکار ہیں خاص کر ہمارے ہاں تو تقریباً سبھی انواع نے ڈیرے جمائے ہیں اندریں صورت کسی ایک خاص نوع فرقہ واریت (مذہبی فرقہ واریت مثلاً) کو زیر بحث لانا اور ان پر خامہ فرسائی غیر مستحسن بھی ہے اور کسی درجہ میں مستحسن بھی اول الذکر کے بارے میں بلاشک و تردد کیا جا سکتا ہے کہ وطن عزیز میں جس طرح مذہبی فرقہ واریت خطرناک ہیں اس سے کہی زیادہ وطنی ، مالی ، سیاسی اور نسبی فرقہ واریت خطرناک ہیں اس سے کہی زیادہ وطنی ، مالی ، سیاسی اور نسبی فرقہ واریت نے اپنے دامن میں بھیانک نتائج ہوئے ہیں بہر کیف مذکورہ مختلف الاقسام فرقہ واریت پر بحث و تمحیص اور ان کا صحیح تجزئیہ ہمارے علماء کرام ، دانش ور حضرات اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ افراد پر لازم ہیں جبکہ ثانی الذکر تو اس لئے کہ مذہبی فرقہ واریت کا شکار براہ راست مذہبی اور دیندار طبقہ کے عوام وخواص ہیں اور پھر یہ پوری سوسائٹی میں پھیل رہا ہے لہذا یہ وقت کی بڑی ضرورت ہے کہ براہ راست ان متاثرہ افراد کو ایک فکری ونظریاتی اور اصلاحی دعوت دی جائے تاکہ وہ تجزئیہ کرکے فرقہ واریت کے اسباب ،نقصانات اور اسکے اصلاحی پہلو پر غورکرسکے اور ہم اس دلدل سے کامیابی کیساتھ نکل سکیں۔
            فرقہ واریت کے دامن میں پرورش پانے والے مہلک افکار ونظریات اور ناپاک جذبات نئے نہیں ہیں اقوام وملل کے صفحات تاریخ میں بکھری ہوئی ہلاکت آفرینیاں عموماً اسی جذبہ برتری وتفوق کا ہولناک نتیجہ ہے کیونکہ جس طرح انفرادی زندگی میں ''انانیت ''تمام اخلاقی عیوب بغض  حسد،عناد ، رشک ،زورآوری اور جاہ طلبی وغیرہ کا سرچشمہ ہوتی ہیں ٹھیک اسی طرح یہی انانیت جب اجتماعی زندگی میں گھس جاتی ہے تو فرقہ واریت کا روپ اختیار کرکے ایک خاندان کو دوسرے خاندان سے ،ایک نسل کو دوسری نسل سے ،ایک قبیلہ کو دوسرے قبیلے سے ،ایک وطن کو دوسرے وطن سے ،ایک تہذیب وتمدن کو دوسرے تہذیب وتمدن سے اور ایک مسلک کو دوسرے ملک سے ٹکرا دیتی ہیں،جس کا عنوان جوش آفرین ہوتا ہے مگر نتیجہ ہوش رُبا!اس سانپ کی رنگارنگیاں نظر فریب ضرور ہوتی ہے لیکن زہر آمیز۔
            ہمارے وطن عزیز کے اندر آج چند طبقات اپنی ناعاقبت اندیشی سے اسی سانپ سے کھیل رہے ہیں لیکن یہ کھیل اگر صرف سیاست یا کسی اور فورم پر کھیلا جاتا تو اسکی لغویت سے صرف نظر کرکے گزرجانا ممکن تھا لیکن افسوس کہ ان پست فکریوں کا مظاہرہ مذہب کے نام پر ہورہا ہے جس کا ایک قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ اس جدید دور کے مفکر اور مذہب نااشنا لوگ مذہب ہی کو شروفساد سمجھنے لگے اور ایک عالمگیر مذہب ہونے کے باوجود ''اسلام''کو بھی اسی خسیس معیار سے پرکھا جانے لگا۔

            بہرحال فرقہ واریت کی روک تھام ضروری ہے تاکہ قوم وملت کیلئے اس سے بچنا ممکن ہوسکے۔

No comments:

Post a Comment