Saturday 27 September 2014

اٹھ کر اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے

            مدیر کے قلم سے…

اٹھ کر اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
      
      علماء انبیاء کے وارث ہیں ،وراثت کا حق اداکرتے ہوئے جب بھی دین کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ان کا مقابلہ کیا اور دین پر آنچ نہ آنے دی۔چنانچہ جب یونانی ملحدین فلسفہ کے زور سے اللہ کی ذات کا انکارکرنے لگے اور منطق کے انداز میں صغری، کبریٰ ملا کر وحدت الوجود کو رد کرنے لگے تو اس وقت کے علماء کرام نے منطق اور فلسفہ کی اشد ضرورت محسوس کی اور ان علوم کو ایسا ازبر کیا کہ وہ لوگ دھنگ رہ گئے ۔مختصر یہ کہ ان کے استدلات انہیں کے انداز میں ایسے رد کردیئے کہ دل داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا اور اسلامی عقائد پر آنچ نہ آنے دی۔
            موجودہ دور کا اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اہل باطل مختلف طریقوں سے دین اسلام پر حملہ آورہورہے ہیں ۔اور مختلف زاویوں سے ان کو کھوکھلاکرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔جس میں سب سے ذیادہ طاقتور میڈیا کا میدان ہے ۔ میڈیاکامہار یہود ونصاریٰ اور ان کے ایجنٹوں کے پاس ہے۔ یہ مسلمانوں کے اندر خلفشار پیدا کرنے ،ان پر اپنا شکنجہ مضبوط کرنے اوران کو اپنا غلام بنانے کابہت ہی آسان راستہ ہے،چنانچہ جب بھی طاعوتی قوتیں کوئی اپنا ٹوٹکاازمانے کا تجربہ کرتی ہیںتو اول میڈیا کو رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے بروئے کار لاتی ہیں ۔ یہ لاٹھی کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔چنانچہ جس کی لاٹھی اس کی ہی بھینس ہوتی ہے۔
            میڈیا کی ایک شاخ تحریر وتصنیف بھی ہے۔جس کو پرنٹ میڈیا کے نام سے جانا جاتاہے یہ بھی اسلام کے خلاف سازشوں میں کسی سے پیچھے نہیں ہے یہ بھی اھل باطل کے نظر کرم پر ہی چل رہا ہے۔اور جو لوگ اس میدان میںمصروف عمل ہے اکثر یت ان میں ایسے ہیں ۔ جن کے قلموں کی  سیاھی اغیار فراھم کررہے ہیں اس میدان میں بھی اھل باطل کا راج ہے اور آئے روز اسلام پر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں۔
            اب ہمار االمیہ یہ ہے کہ باطل کے مقابلے میں ہر میدان میں ہمارے علماء کرام پیش پیش نظر آینگے لیکن تحریر و تصنیف ،پرنٹ اور الیکٹر انک میڈیا میں آٹے میں نمک کے برابر بھی آپ کو نہیں ملیںگے۔اس میں جتنا زیادہ اہل باطل کا عمل ہے اتنا ہی کم ہمار اردعمل ہے کیونکہ وہاں دیندار طبقہ موجو د نہیں ۔ براتو  برا ہے لیکن اگر علمائے کرام کوئی اچھا کام بھی سر انجام دے تو اس کو گول مول کرکے ایسے انداز میں پیش کرتے ہیں کہ بد سے بدتر ین بنادیتے ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ وہاں مستشرقین اور یہود ونصریٰ نے ٹھیکے جمارکھے ہیں جن کو داڑھی ،پگڑ ی اور مدارس مزاق نظر آرہے ہیں ۔چنانچہ ان ہی لوگوں نے دینی طبقے کو دہشتگردکے لبادے میں پیش کیا اور جو بھی اسلام کا نام لیتاہے ان کو انتہا پسند کا جامہ پہنایا ۔او رکسی ایک دن بھی میڈیا پر آپ کو ایسی خبر نہیںملی گی جو دینی طبقے کیلئے حو صلہ بخش ہو بلکہ ان کو بد نام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں ۔
            اگر ہم نے ابھی بھی اس خلا کو پورانہیں کیا ۔اور ماضی کے تلخیوں سے سبق حاصل نہیں کیا ۔اور خارش کے مریض کی طرح ان سے کنارہ کش رہے تو کچھ دور نہیں کہ اپنے ہی لوگ ہمیں چھوڑ جائینگے اسلئے ہمیں چاہیے کہ جدید تقاضوں کو سمجھے اور ان کے مطابق اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر یہود و نصاریٰ اور ان کے ایجنٹو ں کی سازشوں سے اپنی تہذیب وتمدن کا دفاع کریں۔تو جس طرح جامعہ حقانیہ دین کے شعبوں میں مصروف عمل ہے اسی طرح تحریر کے میدان میں بھی طلبہ کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کیلئے ماہنامہ کاروان حق کا انتظام کیا ہے ۔لہذا طلبہ کرام سے درخواست کی جاتی ہے۔کہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنے مضامین سے کاروان حق کو رونق بخشیں۔


اٹھ کر اب بزم جھان کا اور ہی انداز ہے             مشرق اور مغرب میں تیرے ہی دور کا انمازہے۔

No comments:

Post a Comment