Saturday 27 September 2014

تعارف


DOWNLOAD               
تعارف

ادارہ ''کاروانِ حق''اپنے تمام قارئین کا تہہ دل سے شکریہ اداکرتا ہے اور خوش آمدید کہتا ہے

"کاروان حق" جامعہ حقانیہ کے طلباء کرام کا ماہنامہ جداریہ ہے جس کے ذریعے طلباء جامعہ اپنی  قلمی وادبی صلاحتیوں کو  اجاگر کرتے ہیں یہ ماہنامہ اساتذہ کے زیر نگرانی شائع کیا جاتا ہے
 email: jamiahaqqani@gmail.com

ابتدائی کلمات

ابتدائی کلمات

از

شیخ الحدیث حضرتمولانا محمد انوارالحق حقانی صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ
مرکزی نائب صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
ونائب مہتمم جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک

            عصر حاضر میں صحافت اشاعت دین کیلئے سب سے مؤثر ،اور مثبت ذریعہ ہے۔آج مسلم دنیا بالعموم اور ہمارے دینی مدارس بالخصوص اس فن میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لے رہے …جس کی وجہ سے وہ آئے روز ہمارے مذہب اور دین پر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافت کے ہتھیار کو استعمال کرکے ان بے دینوں کا علمی تعاقب کیا جائے اور مسلمانوں کی صحیح اور درست علمی وفکری رہنمائی کی جائے۔
            مقام شکر ہے کہ دارالعلوم حقانیہ کے چند ہونہار طلباء نے طلباء کرام میں علمی،ادبی اور صحافتی ذوق کو پروان چڑھانے کیلئے اردو اور عربی جداری جریدے کا اجراء کیا ہے ۔
            اللہ تعالیٰ ان کی محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول ومنظور فرمائیں۔

والسلام

(شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد انوارالحق صاحب مدظلہ)

اٹھ کر اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے

            مدیر کے قلم سے…

اٹھ کر اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
      
      علماء انبیاء کے وارث ہیں ،وراثت کا حق اداکرتے ہوئے جب بھی دین کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ان کا مقابلہ کیا اور دین پر آنچ نہ آنے دی۔چنانچہ جب یونانی ملحدین فلسفہ کے زور سے اللہ کی ذات کا انکارکرنے لگے اور منطق کے انداز میں صغری، کبریٰ ملا کر وحدت الوجود کو رد کرنے لگے تو اس وقت کے علماء کرام نے منطق اور فلسفہ کی اشد ضرورت محسوس کی اور ان علوم کو ایسا ازبر کیا کہ وہ لوگ دھنگ رہ گئے ۔مختصر یہ کہ ان کے استدلات انہیں کے انداز میں ایسے رد کردیئے کہ دل داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا اور اسلامی عقائد پر آنچ نہ آنے دی۔
            موجودہ دور کا اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اہل باطل مختلف طریقوں سے دین اسلام پر حملہ آورہورہے ہیں ۔اور مختلف زاویوں سے ان کو کھوکھلاکرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔جس میں سب سے ذیادہ طاقتور میڈیا کا میدان ہے ۔ میڈیاکامہار یہود ونصاریٰ اور ان کے ایجنٹوں کے پاس ہے۔ یہ مسلمانوں کے اندر خلفشار پیدا کرنے ،ان پر اپنا شکنجہ مضبوط کرنے اوران کو اپنا غلام بنانے کابہت ہی آسان راستہ ہے،چنانچہ جب بھی طاعوتی قوتیں کوئی اپنا ٹوٹکاازمانے کا تجربہ کرتی ہیںتو اول میڈیا کو رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے بروئے کار لاتی ہیں ۔ یہ لاٹھی کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔چنانچہ جس کی لاٹھی اس کی ہی بھینس ہوتی ہے۔
            میڈیا کی ایک شاخ تحریر وتصنیف بھی ہے۔جس کو پرنٹ میڈیا کے نام سے جانا جاتاہے یہ بھی اسلام کے خلاف سازشوں میں کسی سے پیچھے نہیں ہے یہ بھی اھل باطل کے نظر کرم پر ہی چل رہا ہے۔اور جو لوگ اس میدان میںمصروف عمل ہے اکثر یت ان میں ایسے ہیں ۔ جن کے قلموں کی  سیاھی اغیار فراھم کررہے ہیں اس میدان میں بھی اھل باطل کا راج ہے اور آئے روز اسلام پر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں۔
            اب ہمار االمیہ یہ ہے کہ باطل کے مقابلے میں ہر میدان میں ہمارے علماء کرام پیش پیش نظر آینگے لیکن تحریر و تصنیف ،پرنٹ اور الیکٹر انک میڈیا میں آٹے میں نمک کے برابر بھی آپ کو نہیں ملیںگے۔اس میں جتنا زیادہ اہل باطل کا عمل ہے اتنا ہی کم ہمار اردعمل ہے کیونکہ وہاں دیندار طبقہ موجو د نہیں ۔ براتو  برا ہے لیکن اگر علمائے کرام کوئی اچھا کام بھی سر انجام دے تو اس کو گول مول کرکے ایسے انداز میں پیش کرتے ہیں کہ بد سے بدتر ین بنادیتے ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ وہاں مستشرقین اور یہود ونصریٰ نے ٹھیکے جمارکھے ہیں جن کو داڑھی ،پگڑ ی اور مدارس مزاق نظر آرہے ہیں ۔چنانچہ ان ہی لوگوں نے دینی طبقے کو دہشتگردکے لبادے میں پیش کیا اور جو بھی اسلام کا نام لیتاہے ان کو انتہا پسند کا جامہ پہنایا ۔او رکسی ایک دن بھی میڈیا پر آپ کو ایسی خبر نہیںملی گی جو دینی طبقے کیلئے حو صلہ بخش ہو بلکہ ان کو بد نام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں ۔
            اگر ہم نے ابھی بھی اس خلا کو پورانہیں کیا ۔اور ماضی کے تلخیوں سے سبق حاصل نہیں کیا ۔اور خارش کے مریض کی طرح ان سے کنارہ کش رہے تو کچھ دور نہیں کہ اپنے ہی لوگ ہمیں چھوڑ جائینگے اسلئے ہمیں چاہیے کہ جدید تقاضوں کو سمجھے اور ان کے مطابق اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر یہود و نصاریٰ اور ان کے ایجنٹو ں کی سازشوں سے اپنی تہذیب وتمدن کا دفاع کریں۔تو جس طرح جامعہ حقانیہ دین کے شعبوں میں مصروف عمل ہے اسی طرح تحریر کے میدان میں بھی طلبہ کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کیلئے ماہنامہ کاروان حق کا انتظام کیا ہے ۔لہذا طلبہ کرام سے درخواست کی جاتی ہے۔کہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنے مضامین سے کاروان حق کو رونق بخشیں۔


اٹھ کر اب بزم جھان کا اور ہی انداز ہے             مشرق اور مغرب میں تیرے ہی دور کا انمازہے۔

دیوبند ثانی

                                                                                                                                ابن نصیب خان جلالی(شریک دورہ حدیث)

دیوبند ثانی
            
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔اسلام نے اسلامی تعلیمات (علوم نبویہ) کے حصول پر بہت زور دیا ھے ۔آپ نے

اطلبواالعلم من المہد الی اللحد……طلب العلم فریضة علیٰ کل مسلم۔

ارشاد فرماکر ان علوم کے حاصل کرنے کی ترغیب دی ۔اور کہیں پر العلماء ورثة الانبیاء ''کہہ کر ان علوم کا ثمرہ بتا یااور ان علوم ہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کی تقسیم کی اور فرمایا'

'قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون'

'۔یعنی اس علم کی وجہ سے عالم کو دوسرے لوگوں پر اس طرح فوقیت حاصل ہے جس طرح چاند کو ستاروں پر۔
            ان علوم نبویہ کے حصول کیلئے مختلف اسباب /طرق ہوتے ہیں ۔اور ان میں ایک سبب /طریقہ مدارس ہیں۔اگر یہ سلسلہ آپ کے زمانے میں اصحاب الصفہ کی شکل میں موجود تھا تو آج دارالعلوم حقانیہ کی صورت میں زندہ وتابندہ ہے ۔جامعہ دارالعلوم حقانیہ کی بنیاد ١٩٤٧ء کو شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق صاحب نے رکھی اور اب ایک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی شکل اختیارکرگئی ہے۔
            جامعہ ھذا نے علوم نبویہ کیساتھ ایسی شخصیات بھی امت مسلمہ کو مہیا کئے ہیں جو معاشرہ میں اسلامی تعلیمات کی صحیح ترجمانی کررہے ہیں ۔اور اس کے سا تھ ہیص ہر قسم کے اسلامی شعبوں کیلئے مضبوط رجال باکردار فراہم کئے ہیں۔اگرمیدان سیاست میں امت مسلمہ کی حقوق کی جنگ لڑنے والا اور مدارس دینیہ کا محافظ بن کرکھڑا ہے تو حقانیہ کا سپوت مولانا فضل الرحمن صاحب کی شکل میں ہے۔ اس پُرفتن او دجالی میڈیا کی دور میں عمرفاروق اور عمر بن عبدالعزیز کی جھلک دکھانے والا افغانستان کا بت شکن امیرالمؤمنین ملامحمد عمر مجاہد حفظہ اللہ بھی حقانیہ کا فرزند ارجمند ہے۔اگر باطل قوتوں کیساتھ افغانستان کے محاذوں پر اسلام کا جھنڈا لہرانے والا ہے تو وہ بھی حقانیہ کا فاضل ہی ہے۔اگر علمی کارناموں کی طرف دیکھاجائے تو سب سے خوشبودار پھول شیخ الحدیث مولاناسمیع الحق صاحب مدظلہ کی شکل میں نظر آتا ہے ،فتاویٰ حقانیہ اور فتاویٰ فریدیہ کی تصنیف جامعہ کی وجود مسعود ہی کی وجہ سے معرض وجود میں ائی ہیں۔

            الحمد للہ آج یہ ادراہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہاہے اور اسکی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔

کچھ علمِ معقولات کے بارے میں

خاکپائے اسلاف جواد علی شاہ )شریک دورہ حدیث (

کچھ علمِ معقولات کے بارے میں
           
            اللہ تعالیٰ کا عجیب نظام دنیا میں رہا ہے کہ ہر دورمیں دین متین کی خدمت جن اہل علم حضرات نے کی ہے تو اللہ تعالیٰ نے انکو اہل زمانہ پر برتری اور ایک نمایاں مقام دیا ہے چاہے یہ خدمت براہ راست قرآن وسنت کی ہو جیسے صحابہ کرام  اور تابعین عظام نے اس فریضہ کو پایا تکمیل تک پہنچایا ۔اور چاہے یہ خدمت اُن علوم وفنون کی ہو جو قرآن وسنت کیلئے علم آلیہ کی حیثیت رکھتے ہیں،اسلئے یہ دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم کا درجہ رکھتی ہیں۔
            پھر یہ علوم آلیہ علوم وفنون کا ایک وسیع میدان ہے جس کا ایک شجر اخضر علم المعقولات ہے۔جو قرآن وسنت کے لئے ایک آلہ ہے اور رضا الہی کا سبب ہے جیسا کہ حضرت تھانوی فرمایا کرتے تھے کہ ہم تو جیسے بخاری کے مطالعے میں اجر سمجھتے ہیں میرزاہد اور امور عامہ کے مطالعے میںبھی ویسا ہی اجر سمجھتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ نیت صحیح ہو .
            بہرحال علم المعقولات ایک ایسا علم ہے جو کہ ہر دور میں مخدوم رہا ہے اور مخدومیت کی وجہ ظاہر ہے کہ ہر دور میں علماء اور فضلاء نے اپنی زندگی کی بہاریں اس علم کی خاطر خزائوں میں بدل دی ہیںاور اس کی نظیر علامہ فخرالدین  رازی اور حجة الاسلام امام غزالی جیسے نابغہ روزگار شخصیات ہیں امام رازی نے تفسیر کبیر لکھ کر امت پر ایک بڑا احسان کیا اور امام غزالی  نے تہا فة الفلاسفہ لکھ کر فلاسفہ کے بیہودہ عقائد کی جڑاُکھاڑ دی لیکن دور نہیں، قریب زمانے میں ہندوستان کے مدارس پر نظر ڈالیں تو دیوبند ،رامپور ، سہارنپور ،لکھنو ،خیرآباد اور دہلی کے علاوہ بیسوں مدارس میں آپ کو علم المعقولات نصاب کا ایک جزئِ لازم نظرآئیگا،اوریہ وہ نصاب ہے جو نظام الدین نے لکھنو کے فرنگی محل میں طلباء کیلئے منتخب کیا تھا اور پھر غالباً یہ سارے ہندوستان میں ایک عام نصاب بنتا چلاگیا اور اسی نصاب کے بدولت اللہ تعالیٰ نے ایسے عباقرہ پیداکئے جو سارے ہندوستان میں فرق باطلہ کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار تھے… بہرحال علم المعقولات سارے مدارس میں تاج عروس کی حیثیت رکھتا تھا،چنانچہ مناظر احسن گیلانی  جب دیوبند میں داخلے کیلئے تشریف لائے تو خود اپنا قصہ بیان کرتے ہیں کہ غالباً چھوٹی سی دستی میز پر کتاب تھی ،یہ میرزاہد رسالہ تھا ،شاہ صاحب نے کتاب کھولی اوریتحقق کل فرد بعد ''تحقیق الموصوف'کے الفاظ سے العلم المتجردکی تعریف میرزاہد نے جو کی ہے دریافت فرمایا کہ اس عبارت کا مطلب بیان کرو۔اسی طرح مولانا خان بہادر مارتونگی جب دیوبند داخلے کیلئے تشریف لے گئے تو فرماتے ہیں ''حضرت شاہ صاحب نے قاضی مبارک میں تشکیک کے بحث میں بہت مشکل مشکل سوالات کئے ۔ الغرض علم المعقولات ہمارے اسلاف کی میراث ہے اور اسکی افادیت جس طرح پہلے تھی اسی طرح آج بھی ہے بلکہ آج کل تو اسکے پڑھنے کی اشد ضرورت ہے اسلئے کہ فرق باطلہ کے عقائد کو رد کرنا استدلالِ عقلی  سے ہوتا ہے اور وہ علم المعقولات کے بغیر دشوار ہے چنانچہ حضرت نانوتوی جب برکات احمد ٹونکی کو دعا دیتے تھے توفرماتے تھے ''اللہ تعالیٰ اس کو علم المعقول میں ترقی عطا فرمائے پھر اس کی وجہ بیان فرمائی کہ دین پر قائم رہنا علم معقول حاصل کئے بغیر دشوار ہے۔
            لہذا آج کے علم کی فضا ''جو کہ علم المعقول کے خلاف ہے ''کو ختم کرکے اس کو سیکھنا چاہئے اور دوسروں کو بھی سکھانا چاہئے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ وفہم عطا فرمائے۔اٰمین
                                                                                                            

امت مسلمہ کے زوال کے اسباب

حزب اللہ جان پشاوری(موقوف علیہ)
امت مسلمہ کے زوال کے اسباب
         
   پورے عالم میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کے متبعین ہر زمانہ اور ہردور میں بلندوبالا رہے ہیں ۔جس طرح یہ دین اعلیٰ وارفع ہے اسی طرح اپنے متبعین کو اعلیٰ وارفع بلند وبالا بناتا ہے ۔امت کے جس طبقے نے جس دور میں بھی دین(اسلام) پر عمل کیا تو وہ سرخرو ہوئے ،کامیابی نے انکے قدم چومے پانی نے ان کو راستہ دیا،درندہ جانوروں نے ان کا پہرہ دیا حتی کہ کائنات کا ذرہ ذرہ ان کے تابع ہوا اور انکے اشاروں پر چلنے لگا دنیا کی کوئی طاقت ان پر غالب نہ آسکی چاہے وہ طاغوتی طاقتیں کتنی ہی بڑی تعداد میں کیوں نہ تھی اور کتنی ہی فوجی سہولیات سے لبریز ،اسلحے کے تمام انواع سے لیس کیوں نہ تھیں جبکہ اس کے برعکس مسلمان مٹھی بھر،بغیر خوراک واسلحہ کے ،بغیر توپ ،ٹینک اور تلوار کے ،بغیر بحری بیڑوں اور سواریوں کے حتی برھنہ پا ہوتے ہوئے بھی اتنی بڑی بڑی فوجوں ،سامراجی حکومتوں اور طاغوتی قوتوں پر غالب آئے ہیں ،فتح وکامرانی نے انکے قدم چومے ہیں ،ہر نشیب وفراز نے ان کو سلام پیش کیا ہے اور ہر اونچا سر ان کے سامنے سرنگوں ہواہے۔
            لیکن افسوس صدافسوس!آج دین وہی دین ہے ،اسلام وہی اسلام ہے اللہ وہی اللہ ہے ،تو پھر کیوں یہ امت غیروں کے سامنے ذلیل وخوار ہے ، زندگی کے ہر موڑ پر ناکامی ان کا مقدر کیوں بن چکی ہے انکے سر سرنگوں ہیں ان کی عزتیں تارتار ہوچکی ہیں ۔غلامی کے طوق ان کے گلوں میں لٹک رہے ہیں ، آخر اتنی بڑی بے غیرتی وبے ہمتی آج اس امت کا لباس کیوں بن چکی ہیں ،کیا اللہ بدلا …یا اس کا قانون بدلا…یا اس کا دین بدلا…؟؟نہیں نہیں بلکہ ہر گز ایسا نہیں ہے اللہ وہی اللہ ہے اسلام وہی اسلام ہے ،قانون وہی قانون ہے اگر بدلا ہے تو مسلمان بدلا ہے اگربدلی ہے تو امت بدلی ہے اور یہی اس امت کے زوال کا سب سے بڑا سبب ہے ۔اسی تغیر وتبدل کے چنداسباب ذیل میں ذکر کئے جارہے  ہیں…
(١)       امت کے زوال کے اسباب میں سے ایک امت کا ٹوٹنا اور مختلف جماعتوں میں بٹنا ہے آئے دن ایک نہ ایک جماعت بنتی ہے جو حق کا دعویٰ کرتی ہے اور دوسروں پر تردید وتنقید ۔اور ظاہر ہے کہ آپس کے اختلافات ،عدم اتفاق اور دھڑا بندی سے وہ مثالی جماعت جو نبی علیہ السلام نے امت کو امت بنانے کیلئے دی تھی ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے باقی نہ رہی۔
(٢)      دوسرا بڑا سبب دین سے دوری اور غیروں بالخصوص مغربیت سے دوستی ہے ،دین پر عدم اعتمادی ،اللہ تعالیٰ سے مایوسی اور مال واسباب پر یقین نے ان کو پاؤں تلے روند ڈالا،وسائل قدرت کے پیچھے لگنے کی وجہ سے قدرت ہی ہاتھ سے نکل گئی اور وسائل بھی نہ ملے۔
(٣)     تیسرابڑا سبب اپنے اس کا م کو چھوڑنا ہے جو من حیث الامة ان کو ملاتھا اور جس پر خلا فت ونصرت کے وعدے تھے اور وہ ہے دین پر مضبوطی سے قائم رہنے کیساتھ اس کی ترویج واشاعت کرنا اور اشاعت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا چاہے جان سے ہو یا مال سے ہو یا اولاد سے ہو۔

            الغرض جب تک ہر ہر فرد اجتماعی طور پر اتفاق واتحاد کو قائم کرنے،دین پر عمل کرنے کیساتھ اس کی مسلسل اشاعت میں حائل رکاوٹوں کو دورکرنے اور اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ۖ کی تعلیمات پر ایمان ویقین رکھنے کیساتھ عملی قدم نہ اٹھائے تو یہ امت امت نہیں بن سکتی اور نہ نصرت وخلافت آسکتی ہے ورنہ اسی اللہ تعالیٰ کے حکم سے کائنات میں وہی ہوگا جو امت چاہیگی۔

جامعہ حقانیہ کے اوصاف

محمد قاسم) موقوف علیہ(
جامعہ حقانیہ کے اوصاف


            برصغیر کی سطح پر اللہ تعالیٰ نے جامعہ دارالعلوم حقانیہ کو امتیازی خصوصیات سے نوازا ہے اسکے فضلاء ہر میدان میں (دین کے ہر شعبے )میں مصروف عمل ہیں ۔چاہے میدانِ جہاد ہو جیسے کہ امیرالمؤمنین ملامحمد عمر مجاہد حفظہ اللہ اور مولانا جلال الدین حقانی حفظہ اللہ تعالیٰ وغیرہ ۔یا چاہے سیاست کے میدان میں موجودہ دور کے قائدین کے کارنامے اظہر من الشمس ہے ۔اسی طرح اور شعبوں میں بھی جامعہ حقانیہ کے فضلاء آگے آگے ہے۔یہ اوصاف اللہ تعالیٰ نے جامعہ کو کس وجہ سے دیئے ہیں یہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق صاحب کی اخلاص،خدمات ،ادب واحترام اور دعاؤں کا نتیجہ ہے اللہ تعالیٰ انکو کروٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب کریں۔آج الحمد للہ جامعہ روز بروز ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔اور جامعہ کے مشائخ واساتذہ کرام کا کردار اوراوصاف بندہ اپنی ناقص زبان سے ادا نہیں کرسکتا کیونکہ یہ حضرات بلند شان اور مرتبے والے ہیں۔ہر استاد ہر فن میں عملی کام کررہا ہے خاص کر تصنیف کے میدان میں،اور اسی طرح تعلیم وتعلم میں بھی بے مثال ہیں ،جب بھی سبق پڑھاتے ہیں گویا کہ اُن کے منہ سے جواہرنکلتے ہیں ،اور سارا دن تدریسی مشاغل میں مصروفیت کے باجود تصنیفی خدمات بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔اور تمام اساتذہ کرام سادہ مزاج ہے جب بھی ملنے کو دل چاہے ملنے سے انکار نہیں کرتے ۔حقانیہ کے مشائخ اسلاف کا نمونہ ہیں جیسا کہ اکابرینِ دیوبند صحابہ  کا نمونہ تھے اور جس طرح ہر ایک کی تاریخ دوسرے سے ممتاز ہوتی ہے اسی طرح ہمارے اساتذہ کرام ایسے اوصاف کے حامل ہیں کہ ہر ایک کی خوشبو دوسرے سے جدا اور دلفریب ہے۔اور یہ ان اساتذہ کرام کی کرامت ہے کہ ہر سال جامعہ سے اتنے فضلاء کرام فارغ التحصیل ہوتے ہیں کہ جتنا برصغیر کے کسی بھی مدرسے(بشمول دارالعلوم دیوبند) فارغ التحصیل نہیں ہوتے ہیں۔ہم اس پر فخر کرتے ہیں کہ دارالعلوم حقانیہ کے اساتذہ کرام تمام عالم اسلام کے لئے بادل کے مانند ہیں اور ہم ان کے لئے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ جامعہ حقانیہ کے شیوخ کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھیں اور جامعہ حقانیہ کو تاقیامت قائم ودائم رکھیں اور ہر قسم کے شر سے اللہ تعالیٰ اسکی حفاظت فرمائیں۔

موت کی یاد

طفیل احمدحقانی
                                                                                                                                    موقوف علیہ
موت کی یاد
       
     قال تبارک تعالیٰ:کل نفسٍ ذائقة الموتالاٰیة۔قیل:الموتُ یأتی بغتةً والقَبر صُندوقُ العملِ
            اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کو پیداکیا ہے اور ایک دن ایسا آئیگا کہ یہ ساری کائنات ختم ہوجائیگی اس کائنات میں جو ذی روح اشیاء ہیں ان کا ختم ہو جانا موت کے ذریعے ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ایک قانون بتا یا ہے کہ ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
            سائنسی ترقی کے عروج کے باوجود موت ایک زندہ حقیقت ہے۔ہمارے پیغمبر برحق ۖ سے ایک صحابی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ۖ سمجھدار کسے کہتے ہیں ؟سرکاردوعالم ۖ نے فرمایا کہ 
''اکثرہم للموت ذکراً واحسنہم لہ استعداداً'
'یعنی جو موت کو کثرت سے یاد کرتا ہے اور اسکی تیاری کرتا ہے۔اس حدیث پاک میں رسول کریم ۖ نے موت کے بارے میں دوچیزیں ذکر فرمائی،پہلا موت کو کثرت سے یاد کرنا اور دوسرا موت کیلئے تیاری کرنا ۔موت کو کثرت سے یاد کرنا باعث اجر وثواب ہے ،کیونکہ موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کو یاد کرنے سے دنیا کی لذتوں اور اسکی دلچسپیوں میں کمی آتی ہے اور انسان کا دل مالکِ حقیقی کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
            حضرت عطاخراسانی  فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ۖ کا ایک مجلس سے گزر ہوا جہاں سے ہنسنے کی آوازیں آرہی تھی نبی کریم ۖ نے ارشاد فرمایا کہ ''اپنی مجالس میں لذتوں کو مکدر کرنے والی چیز کا تذکرہ شامل کرلیا کرو ،صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ۖ لذتوں کو مکدر کرنے والی چیز کیا ہے؟فرمایا موت ہے ،جو گناہوں کو زائل کرتی ہے ۔اور دنیا سے بے رغبتی پیداکرتی ہے اسلئے موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔ایک موقع پر آنحضرت محمد ۖ نے ارشاد فرمایا ''اگر تم کو یہ معلوم ہوجائے کہ مرنے کے بعد تم پر کیا گزریگی تو تم کبھی رغبت سے کھانا نہ کھاؤگے اور نہ پانی پی سکو گے۔ایک حدیث میں ہے کہ اگر جانوروں کو موت کے متعلق اتنی معلومات ہو جتنی تم لوگوں کو ہیں تو تمہیں موٹا جانور کھانے کو نہ ملے۔
            ایک عورت نے حضرت عائشہ سے اپنے دل کی قساوت کی شکایت کی آپ نے فرمایا کہ موت کو کثرت سے یاد کرو انشاء اللہ دل نرم ہوجائیگا،اس عورت نے ایسا ہی کیا کچھ عرصہ بعد واپس آئی اور بتایا کہ موت کی کثرت نے میرے دل کو روٹی کے گالے کی طرح نرم کردیا ہے۔بالآخر موت کی یاد سے اللہ تعالیٰ کا خوف پیداہو تا ہے ایمان میں پختگی آتی ہے ،اصلاح کرنے میں آسانی پیداہوتی ہے۔
            آج کل انسان موت سے لاپروا ہے جسکی وجہ سے انسان کے دل میں دنیا کی محبت پیداہوئی ہے اور انسان اللہ تعالیٰ کے احکامات سے بے پرواہی کرتا ہے آج انسان اللہ تعالیٰ کے اوامر پر عمل نہ کرنے سے اور نواہی سے اجتناب نہ کرنے سے کئی طرح کے مصیبتوں میں مبتلا ہے آج انسان اپنی خواہشات کے تابع ہے ۔حدیث میں آتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پیدا کیا اور ان میں خالص عقل رکھی اور بہائم کو پیداکیا اور ان میں خالص شہوت رکھی اور بنی آدم کو پیدا کیا اور ان میں عقل اور شہوت دونوں رکھی پس جس کی عقل شہوت پر غالب آئی وہ فرشتوں سے بھی اعلیٰ اور ارفع ہے اور جس کی شہوت عقل پر غالب آگئی وہ بہائم سے بھی بدتر ہے بے شک ایسا ہی ہے آنحضرت ۖ نے حق وسچ فرمایا۔
            حدیث کا دوسرا جزء موت کیلئے تیاری کرنا ہے ،موت کیلئے تیاری یہ ہے کہ اگرایک مسلمان نے حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کوتاہی کی ہو تو آج سے اللہ کے دربار میں سچی توبہ کرے اور بندوں کو اپنا حق دیں،کیونکہ موت اچانک آتی ہے اس وجہ سے موت کے آنے سے پہلے پہلے اپنے آپ کو درست کرنا ضروری ہے۔ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
                        پچھتائے گا منزل ہے کڑی ،دیکھ کہا مان         ::          کچھ زادِ سفر باندھ لے دامان کفن میں۔
                                                                                                                                            

حقوق الوالدین

جاوید اقبال )موقوف علیہ(
حقوق الوالدین

             اللہ تعالی نے انسانوں پر حد سے زیادہ انعامات کیئے ہیں ارشاد گرامی ہے
وان تعدوا نعمة اللہ لا تحصوہا 
کہ اگر آ پ ہماری نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو آپ اسکے شمار سے عاجز ہونگے کیونکہ جب انسان ذی عقل سمجھدار ہو تو وہ یہ سمجھے گاکہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو پیدا کیا یعنی عدم سے وجود میں لایا پھر مسلمان پیدا کیا اور پھرا مت محمدیہ میں پیدافرمایا یقینا یہ تمام انعامات ہیں لیکن ان نعمتوں میں سے ایک نعمت والدین بھی ہیں انکی نافرمانی یقینا گناہ کبیرہ ہے جیسا کہ حدیث مبارک میں وارد ہے کہ الکبائر: 
الاشراک باللہ  وحقوق الوالدین وقتل النفس
، کبائر گناہیں اللہ تعالیٰ کیساتھ ذات وصفات میں کسی کو شریک ماننا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور قصدا عمدا کسی شخص کو قتل کرنا۔
            قرآن وحدیث میں بہت سی آیات اور احادیث اسکی تائید کرتی ہیں ان میں سے ایک آیت ہے جو اوپر مذکور ہے اس میں ایک آیت ، 
الاتعبدواالاایاہ وبالوالدین احسانا
،کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کروگے اور والدین کیساتھ حسن سلوک اور احسان کروگے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے پہلے عبادات اور بندگی صرف معبود واحد لاشریک لہ ، کہ وہ اللہ ہے کیلئے کرنے کی ترغیب دی پھر متصلا والدین کیساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا کہ عبادت اور بندگی کے بعد والدین کی اطاعت بھی ایک امر وجوبی ہے کیونکہ اسکو رسول اللہ ۖ نے الکبائر فرمایاہے اور کبائر (گناہ کبیرہ) سے جان بچانا واجب ہے اور گناہ کبیرہ کا مرتکب عاصی اور گنہگار ہے پھر دوسری جگہ قران مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسان پراسکی ماں کا اسے پیٹ میں لیے پھرنے کا ذکرفرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ۔کہ
ووصیناالانسان بوالدیہ حملتہ امہ وھنا علی وھن و فصالہ فی عامین ان ا شکرلی ولوالدیک و الی المصیر،
کہ انسان جب ماں کے پیٹ میں تھا تو ماں کی مشقت اور اسکی تکلیف کا ذکر فرماتے ہوے انسان کو اسکی اطاعت پر برانگیختہ کیا کہ آپ پر والدین کے بہت حقوق ہیں من جملہ ان میں سے ایک حمل بھی ہے اور بچپن میں آپکے ساتھ احسانات کرنابھی ہے۔
            دوسری آیت ہے 
فلاتقل لھما اف ولاتنھر ھما،الایة
،کہ آپ اپنے والدین کو اف قدر بھی نہ کہنا اور نہ انکی رسوائی کرنا بلکہ انکے ساتھ ادب سے بات کرنا اس آیت مبارک میں علماء اصولین فرماتے ہیں کہ والدین کو لفظ اف کہنا حرام ہے اسلئے کہ اس میں والدین کو تکلیف ہوتی ہے پس ہر وہ کلمہ جس سے والدین کو ایذ اء وتکلیف ہو تی ہے وہ حرام ہے جیسے،رسوا کرنا، شرمندہ کرنا ،گالی دینا ،مارناوغیرہ وہ سب کے سب حرام ہیں ۔
            یقینا والدین نعمت ہیں انکی قدر انسان کو اس وقت محسوس ہو تی ہے جب وہ نہ ہوں وفات پا چکے ہوں۔بہت سے احادیث انکے خدمت کے بارے میں وارد ہوئے ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ
رضی الرب فی رضی الوالد وسخط الرب فی سخط الوالد
۔کہ اللہ تعالیٰ کا راضی ہونا والد کے راضی ہونے میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی نا خوشی والد کی ناخوشی میں ہے۔
            دوسری حدیث میں ہے کہ عبداللہ ابن مسعود نے عرض کیا یارسول اللہ سب سے بڑھ کرعمل کونسا ہے ؟فرمایا نماز پڑھنا اپنے وقت پر، پھر انھوں نے عرض کیا :پھر کونساعمل افضل ہے ؟رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ والدین کی خدمت ،انھوں نے عرض کیا پھر کونسا عمل ؟آپ ۖ نے فرمایاجہاد فی سبیل اللہ ۔

            اس حدیث مبارک سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت کرنا اور انکے ساتھ نرم کلامی اور حسن سلوک یہ یقینا اللہ تعالیٰ کی رضاکی علامت ہے اور جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے اور انکی نافرمانی اور انکے ساتھ تلخ کلامی ظلم وستم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور دنیا اورآخرت میں ذلت ورسائی کاذریہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کی فرمانبرداری اور اطاعت نصیب فرمائیں ،اور عمل کی توفیق دیں۔آمین۔

مذہبی فرقہ واریت ... ایک جائزہ

محمد ایو ب بن انور خان) شریک دورہ حدیث(
مذہبی فرقہ واریت ... ایک جائزہ
          
  فرقہ واریت دور حاضر کا ایک نعرہ اوراصلاح ہے جو بار بار اٹھایا جا رہا ہے یوں تو فرقہ واریت کے مختلف انواع ہیں جس نے نہ صرف عالم اسلام بلکہ بنی نوع انسان کو اپنے لپیٹ میں لیا ہے ۔ فرقہ واریت کے انواع و اقسام میں وطنی فرقہ واریت ، سیاسی فرقہ واریت ،مالی فرقہ واریت، تنظیمی فرقہ واریت ،تعلیمی فرقہ واریت (طبقاتی نظام تعلیم ) قانونی فرقہ واریت اور مذہبی فرقہ واریت شامل ہیں ان متنوع فرقہ واریت نے ہمارے گردو پیش کو متاثر کیا ہے یہاں تک کہ دنیا کا کوئی بھی خطہ ، وطن اور ریاست کسی نہ کسی درجے میں کسی بھی فرقہ واریت کے شکار ہیں خاص کر ہمارے ہاں تو تقریباً سبھی انواع نے ڈیرے جمائے ہیں اندریں صورت کسی ایک خاص نوع فرقہ واریت (مذہبی فرقہ واریت مثلاً) کو زیر بحث لانا اور ان پر خامہ فرسائی غیر مستحسن بھی ہے اور کسی درجہ میں مستحسن بھی اول الذکر کے بارے میں بلاشک و تردد کیا جا سکتا ہے کہ وطن عزیز میں جس طرح مذہبی فرقہ واریت خطرناک ہیں اس سے کہی زیادہ وطنی ، مالی ، سیاسی اور نسبی فرقہ واریت خطرناک ہیں اس سے کہی زیادہ وطنی ، مالی ، سیاسی اور نسبی فرقہ واریت نے اپنے دامن میں بھیانک نتائج ہوئے ہیں بہر کیف مذکورہ مختلف الاقسام فرقہ واریت پر بحث و تمحیص اور ان کا صحیح تجزئیہ ہمارے علماء کرام ، دانش ور حضرات اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ افراد پر لازم ہیں جبکہ ثانی الذکر تو اس لئے کہ مذہبی فرقہ واریت کا شکار براہ راست مذہبی اور دیندار طبقہ کے عوام وخواص ہیں اور پھر یہ پوری سوسائٹی میں پھیل رہا ہے لہذا یہ وقت کی بڑی ضرورت ہے کہ براہ راست ان متاثرہ افراد کو ایک فکری ونظریاتی اور اصلاحی دعوت دی جائے تاکہ وہ تجزئیہ کرکے فرقہ واریت کے اسباب ،نقصانات اور اسکے اصلاحی پہلو پر غورکرسکے اور ہم اس دلدل سے کامیابی کیساتھ نکل سکیں۔
            فرقہ واریت کے دامن میں پرورش پانے والے مہلک افکار ونظریات اور ناپاک جذبات نئے نہیں ہیں اقوام وملل کے صفحات تاریخ میں بکھری ہوئی ہلاکت آفرینیاں عموماً اسی جذبہ برتری وتفوق کا ہولناک نتیجہ ہے کیونکہ جس طرح انفرادی زندگی میں ''انانیت ''تمام اخلاقی عیوب بغض  حسد،عناد ، رشک ،زورآوری اور جاہ طلبی وغیرہ کا سرچشمہ ہوتی ہیں ٹھیک اسی طرح یہی انانیت جب اجتماعی زندگی میں گھس جاتی ہے تو فرقہ واریت کا روپ اختیار کرکے ایک خاندان کو دوسرے خاندان سے ،ایک نسل کو دوسری نسل سے ،ایک قبیلہ کو دوسرے قبیلے سے ،ایک وطن کو دوسرے وطن سے ،ایک تہذیب وتمدن کو دوسرے تہذیب وتمدن سے اور ایک مسلک کو دوسرے ملک سے ٹکرا دیتی ہیں،جس کا عنوان جوش آفرین ہوتا ہے مگر نتیجہ ہوش رُبا!اس سانپ کی رنگارنگیاں نظر فریب ضرور ہوتی ہے لیکن زہر آمیز۔
            ہمارے وطن عزیز کے اندر آج چند طبقات اپنی ناعاقبت اندیشی سے اسی سانپ سے کھیل رہے ہیں لیکن یہ کھیل اگر صرف سیاست یا کسی اور فورم پر کھیلا جاتا تو اسکی لغویت سے صرف نظر کرکے گزرجانا ممکن تھا لیکن افسوس کہ ان پست فکریوں کا مظاہرہ مذہب کے نام پر ہورہا ہے جس کا ایک قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ اس جدید دور کے مفکر اور مذہب نااشنا لوگ مذہب ہی کو شروفساد سمجھنے لگے اور ایک عالمگیر مذہب ہونے کے باوجود ''اسلام''کو بھی اسی خسیس معیار سے پرکھا جانے لگا۔

            بہرحال فرقہ واریت کی روک تھام ضروری ہے تاکہ قوم وملت کیلئے اس سے بچنا ممکن ہوسکے۔

قربانی کا ایک فقہی جائزہ

عباداللہ)شریک دورہ حدیث(
قربانی کا ایک فقہی جائزہ

شریعت مطہرہ میں اللہ تعالیٰ عزوجل سے مال کے ذریعہ قربت حاصل کرنے کے دوطریقے ہیں ۔پہلا اپنے مال کا مالک دوسرے کو بنانا اور اسکو حوالہ کرکے اپنے ذمہ خالی کرنا،مثلاصدقات اور زکواة اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے 
ومثل الذین ینفقون اموالھم فی سبیل للہ ثم لایتبعون ماانفقوا مناولااذی لھم اجرھم عندربھم ولاخوف علیھم ولاھم یحزنون ،سورةالبقرہ۔(٢٦٢)
اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی کو اپنے مال کے ذریعے غلامی کے طوق سے آزادکرنا اور اتلاف نفس کرنا،'
' عن ابی ھریرة من اعتق رقبة مسلمة اعتق اللہ لکل عضو''
۔اب اگر قربانی کا گہری نظرسے مطالعہ کیا جائے تو یہ دونوں طبقے اس میں بدرجہ اتم موجود ہیں کیونکہ قربانی کے جانور کا خون بہانا اللہ کی رضاکیلئے اتلاف نفس میں آگیا۔اور جانور کا گوشت غریبوں اور ناداروں میں تقسیم کرناصدقہ اورخیرات کے زمرے میں آگیا۔قربانی کی حقیقت اور اس کا مقصد، 
کقولہ تعالیٰ وفدینہ بذبح عظیم (الصٰفت١٠٧)۔
حضرات صحابہ کرام  نے رسول اللہ ۖ سے عرض کیا کہ یاسول اللہ یہ قربانی کیا چیز ہے ؟تو رسول اللہ ۖنے ارشاد فرمایا سنّة ابیکم ابراہیم یہ تمہارے والد ابراہیم  کی سنت ہے ۔صحابہ کرام نے عرض کیایا رسول اللہ ہمیں اس قربانی پر کیا ملے گا؟ حضورۖ نے فرمایا ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی ۔ جانور کے پشت پر جتنے بال ہیں اتنے ہی بالوں کے برابر نیکیا ں تمہارے نامہ اعمال میں درج کی جائیں گی ۔ پھر صحابہ کرام نے فوراعرض کیا کہ یارسول اللہ ۖ اگر بال نہ ہو بلکہ اون ہو جیسے بھیڑ کی پشت پر بال زیادہ ہوتے ہیں تو حضور اقدس ۖ نے فرمایااون کے ہر بال کے بدلے میں بھی ایک نیکی ملے گی (الترعیب والتر ہیب) اس طرح اللہ تعالیٰ کا مقصد اس واقعہ سے امت مسلمہ اور امت ابراہیم کو یہ دکھاناتھا کہ دیکھو!ہمار ا نبی اپنی طبعی پدری جذبات اور اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں قربان کردیتاہے ۔اسلئے اگر تم مؤمن ہو تو تم بھی اپنے تمام جذبات کو اللہ تعالیٰ کے راستے قربان کردو،یہ جو قربانی ہے یہ درحقیقت اپنے جذبات کو قربان کرناہے یہی وجہ ہے کہ اگر آپ اللہ کے راستے میں بازار سے خرید کر دوچار من گوشت غریبوں میں تقسیم کردیں تو آپ کو قربانی کا ثواب نہیں ملے گا آپ کو گوشت تقسیم کرنے کا ثواب ملے گا۔
نصاب قربانی:جس شخص کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا انکی قیمت جو ضرورت اصلیہ سے زائد موجود ہو تو اس پر قربانی واجب ہوگی۔اگرچہ اس پر سال نہ گزرا ہو ۔امام صاحب  سونے کو چاندی کے تابع فرماتے ہیں کہ ایک تولہ سونا اور کچھ چاندی یا قیمت کیساتھ بھی قربانی واجب ہوگی جبکہ صاحبین  سونے اور چاندی کو الگ الگ نصاب فرماتے ہیں۔فتویٰ صاحبین کے قول پر ہیں کیونکہ یہ دفع خرج پر مبنی ہے جبکہ امام صاحب کا قول انفع للفقراء ہے۔
قربانی کا وقت:اسی طرح قربانی کی عبادت بھی ذوالحجہ کے مہینے میں ہی ادا ہوسکتی ہے نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد اداہوسکتی ہے اور یہ ذوالحجہ کے تین دنوں میں ہی مسنون ہے یعنی دس ،گیارہ اور بارہ تاریخ کو۔
قربانی کی دعا کا مفہوم: جانور کی قربانی کے وقت جو کلمہ پڑھا جاتاہے ،یہ بھی عجیب کلمہ ہے
 ،انّ صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ ربّ العالمین۔(الانعام ١٦٢)
ترجمہ:میری نماز ،میری قربانی ،میری زندگی ،میری موت اللہ کیلئے ہے جو دوجہانوں کا پرودگار ہے''(بیان القرآن)