خاکپائے
اسلاف جواد علی شاہ )شریک دورہ حدیث (
کچھ علمِ معقولات کے بارے میں
اللہ تعالیٰ کا عجیب نظام دنیا میں
رہا ہے کہ ہر دورمیں دین متین کی خدمت جن اہل علم حضرات نے کی ہے تو اللہ تعالیٰ
نے انکو اہل زمانہ پر برتری اور ایک نمایاں مقام دیا ہے چاہے یہ خدمت براہ راست
قرآن وسنت کی ہو جیسے صحابہ کرام اور
تابعین عظام نے اس فریضہ کو پایا تکمیل تک پہنچایا ۔اور چاہے یہ خدمت اُن علوم
وفنون کی ہو جو قرآن وسنت کیلئے علم آلیہ کی حیثیت رکھتے ہیں،اسلئے یہ دونوں ایک
دوسرے کیلئے لازم وملزوم کا درجہ رکھتی ہیں۔
پھر یہ علوم آلیہ علوم وفنون کا ایک
وسیع میدان ہے جس کا ایک شجر اخضر علم المعقولات ہے۔جو قرآن وسنت کے لئے ایک آلہ
ہے اور رضا الہی کا سبب ہے جیسا کہ حضرت تھانوی فرمایا کرتے تھے کہ ہم تو جیسے
بخاری کے مطالعے میں اجر سمجھتے ہیں میرزاہد اور امور عامہ کے مطالعے میںبھی ویسا
ہی اجر سمجھتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ نیت صحیح ہو .
بہرحال علم المعقولات ایک ایسا علم ہے
جو کہ ہر دور میں مخدوم رہا ہے اور مخدومیت کی وجہ ظاہر ہے کہ ہر دور میں علماء
اور فضلاء نے اپنی زندگی کی بہاریں اس علم کی خاطر خزائوں میں بدل دی ہیںاور اس کی
نظیر علامہ فخرالدین رازی اور حجة الاسلام
امام غزالی جیسے نابغہ روزگار شخصیات ہیں امام رازی نے تفسیر کبیر لکھ کر امت پر
ایک بڑا احسان کیا اور امام غزالی نے تہا
فة الفلاسفہ لکھ کر فلاسفہ کے بیہودہ عقائد کی جڑاُکھاڑ دی لیکن دور نہیں، قریب
زمانے میں ہندوستان کے مدارس پر نظر ڈالیں تو دیوبند ،رامپور ، سہارنپور ،لکھنو
،خیرآباد اور دہلی کے علاوہ بیسوں مدارس میں آپ کو علم المعقولات نصاب کا ایک جزئِ
لازم نظرآئیگا،اوریہ وہ نصاب ہے جو نظام الدین نے لکھنو کے فرنگی محل میں طلباء
کیلئے منتخب کیا تھا اور پھر غالباً یہ سارے ہندوستان میں ایک عام نصاب بنتا
چلاگیا اور اسی نصاب کے بدولت اللہ تعالیٰ نے ایسے عباقرہ پیداکئے جو سارے
ہندوستان میں فرق باطلہ کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار تھے… بہرحال علم المعقولات
سارے مدارس میں تاج عروس کی حیثیت رکھتا تھا،چنانچہ مناظر احسن گیلانی جب دیوبند میں داخلے کیلئے تشریف لائے تو خود
اپنا قصہ بیان کرتے ہیں کہ غالباً چھوٹی سی دستی میز پر کتاب تھی ،یہ میرزاہد
رسالہ تھا ،شاہ صاحب نے کتاب کھولی اوریتحقق کل فرد بعد ''تحقیق الموصوف'کے الفاظ
سے العلم المتجردکی تعریف میرزاہد نے جو کی ہے دریافت فرمایا کہ اس عبارت کا مطلب
بیان کرو۔اسی طرح مولانا خان بہادر مارتونگی جب دیوبند داخلے کیلئے تشریف لے گئے
تو فرماتے ہیں ''حضرت شاہ صاحب نے قاضی مبارک میں تشکیک کے بحث میں بہت مشکل مشکل
سوالات کئے ۔ الغرض علم المعقولات ہمارے اسلاف کی میراث ہے اور اسکی افادیت جس طرح
پہلے تھی اسی طرح آج بھی ہے بلکہ آج کل تو اسکے پڑھنے کی اشد ضرورت ہے اسلئے کہ
فرق باطلہ کے عقائد کو رد کرنا استدلالِ عقلی
سے ہوتا ہے اور وہ علم المعقولات کے بغیر دشوار ہے چنانچہ حضرت نانوتوی جب
برکات احمد ٹونکی کو دعا دیتے تھے توفرماتے تھے ''اللہ تعالیٰ اس کو علم المعقول
میں ترقی عطا فرمائے پھر اس کی وجہ بیان فرمائی کہ دین پر قائم رہنا علم معقول
حاصل کئے بغیر دشوار ہے۔
لہذا آج کے علم کی فضا ''جو کہ علم
المعقول کے خلاف ہے ''کو ختم کرکے اس کو سیکھنا چاہئے اور دوسروں کو بھی سکھانا
چاہئے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ وفہم عطا فرمائے۔اٰمین
No comments:
Post a Comment