Saturday 27 September 2014

چند گزارشات طلباء کرام کے نام

  محمد عارف حقانی )شریک دورہ حدیث (
چند گزارشات طلباء کرام کے نام
           
علم شمع ہے اوردینی مدارس کے طلباء اس کے پتنگ ہیں وہ ہر وقت اپنے تن من دھن کو اس پر نچاور کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں اوراس کے حصول میں شب وروزمشقتیں برداشت کرتے ہیں کہ کسی طریقہ سے وہ اس قیمتی اثاثے کو پالیں ۔
            علم سے مقصود معرفت خداوندی جل جلا لہ اوراللہ تعالیٰ اوراس کے رسول اللہ ۖ کے ا رشادات کی بجاآوری اوران کے منہیات سے دوری ہے جس کا یہ مقصد ہو تووہ کامیاب ہے اوراگر کوئی دنیاوی مقصد ہو توناکام ۔علم کے حصول میں استاذ کا بڑا مقام ہے ۔حضرت مولانا مفتی غلام قادر نعمانی صاحب مد ظلہ العالی نے دوران درس فرمایا : طالب علم کو تین چیز وں کی قدر کرنی چاہیئے ۔کتاب ، صاحب کتاب ، اور استاذ ۔اگر ان میں سے ایک کی بھی وقعت نہ ہوگی تووہ علم بے نور ہوگا لہذا استاذ کا انتہائی ادب کرنا چاہیئے ۔ادب کس چیز کا نام ہے ؟ حضرت تھانوی قد س اللہ سرہ نے ادب کی تعریف کی ہے ،کہ ادب تعظیم کا نام نہیں ہے بلکہ راحت رسانی کا نام ہے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور ۖ کی انتہائی تعظیم کیا کرتے تھے لیکن حضورۖ نے منع فرمایا کہ آپ ۖ کے آنے پر کھڑے نہ ہو ں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہیں کھڑے ہوئے تھے ۔چونکہ اس میں حضور ۖ کو راحت ملتی تھی توصحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے یہ عمل اختیا ر کرلیا ۔ طلباء کوچاہئے کہ اساتذہ کرام کی طبعیتوں کو معلوم کریں ،جن کاموں سے وہ خوش ہوتے ہوں ،وہ کریں اورجن کاموں سے ناخوش ہوتے ہیں ان سے پرہیز کریں ۔انکی تقسیم اوقات سے باخبر رہنا چاہئے ۔کہ کونسے معمولات کونسے اوقات میں ادا فرماتے ہیں کس وقت فارغ ہوتے ہیں ،ان سے ملاقات کب ممکن ہوتی ہے۔اگر ہم ان باتوںپر عمل کریں گے تواساتذہ کو بہت سہولت ہوگی ۔اس طرح طلباء کرام بھی ان کی ملاقات سے مستفید ہونگے۔
            بزرگوں کے ساتھ مصافحہ کرنا باعث خیر وبرکت ہے ۔لیکن اس میں اختیاط کرنا چاہیئے ایسا نہ ہو کہ خیر شر کی صورت اختیار کرلے۔شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے ایک مرتبہ دوران بیان فرمایا کہ : ہمارا عقیدہ بن چکا ہے کہ جب تک مصافحہ نہ کیا ہو توگویا دین وایمان ہی نہ رہا ،اورجب مصافحہ ہو ا توگویا جنت مل گئی ،کسی کو رنج پہنچے توکیا ہو ا ؟ اپنی نگا ہ میں ثواب کاکا م کررہا ہے ،اپنی نظیر میں محبت کا اظہار کررہا ہے لیکن وہ محبت ریچھ جیسی حیثیت محبت ہے۔لہذا اگر اساتذہ کرام مصروف ہوں ۔ذکر واذکار میں مہمانوں کے ساتھ توملاقات سے اجتناب کرنا چاہیئے ۔
            حضرت تھانوی رحمہ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ آپ صبح کی نماز کے بعد وظیفہ کیا کرتے تھے ۔ایک مرتبہ آپ وظیفہ کررہے تھے ایک شخص آیا اورایک چکر لگا کر آپکے پیچھے بیٹھ گئے ۔یہ دکھلانے کیلئے کہ مصافحہ کرنا ہے ۔حالانکہ جو وظیفہ کررہا ہو تو اس کے ساتھ نہ کلام جائز ہے اورنہ مصافحہ ۔لیکن وہ شخص نے پکا عزم کیا تھا مصافحہ کرنے کا ۔جب بہت وقت گز ر گیا  تواس نے بلند آواز میں کہا ۔مصافحہ حضرت نے بھی اتنی بلند آواز میں فرمایا :وظیفہ ۔لیکن وہ شخص ابھی تک بیٹھا رہا ۔حضرت وظیفہ میں مصروف رہے کچھ وقت بعدحضرت کھڑے ہوگئے ۔اوراس صاحب کے پیچھے بیٹھ گئے ۔اب یہ صاحب نہ ادھر ہل سکتاہے نہ ادھر ، نہ چل سکتاہے ۔جب حضرت وظیفہ سے فارغ ہوئے تو اس صاحب سے فرمایا آپ کے پیچھے بیٹھنے سے آپ کو تکلیف ہوئی ،؟تواس نے کہا جی تکلیف ہوئی ۔ توفرمایا کہ جس طرح آپ کو تکلیف ہوئی تواس شخص کو بھی تکلیف ہوتی ہے جو کسی کام میں مشغول ہواورکوئی اس کے پیچھے بیٹھ جائے،یہ دکھاتے ہوئے کہ میں انتظار کررہاہوں ،چنانچہ اس عمل سے وہ شخص باز آیا ۔

            لہذاہمیں چاہئے کہ اساتذہ کرام کے قیمتی اوقات کا خیال رکھیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائیں ۔آمین ثم آمین 

No comments:

Post a Comment