Saturday 27 September 2014

موت کی یاد

طفیل احمدحقانی
                                                                                                                                    موقوف علیہ
موت کی یاد
       
     قال تبارک تعالیٰ:کل نفسٍ ذائقة الموتالاٰیة۔قیل:الموتُ یأتی بغتةً والقَبر صُندوقُ العملِ
            اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کو پیداکیا ہے اور ایک دن ایسا آئیگا کہ یہ ساری کائنات ختم ہوجائیگی اس کائنات میں جو ذی روح اشیاء ہیں ان کا ختم ہو جانا موت کے ذریعے ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ایک قانون بتا یا ہے کہ ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
            سائنسی ترقی کے عروج کے باوجود موت ایک زندہ حقیقت ہے۔ہمارے پیغمبر برحق ۖ سے ایک صحابی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ۖ سمجھدار کسے کہتے ہیں ؟سرکاردوعالم ۖ نے فرمایا کہ 
''اکثرہم للموت ذکراً واحسنہم لہ استعداداً'
'یعنی جو موت کو کثرت سے یاد کرتا ہے اور اسکی تیاری کرتا ہے۔اس حدیث پاک میں رسول کریم ۖ نے موت کے بارے میں دوچیزیں ذکر فرمائی،پہلا موت کو کثرت سے یاد کرنا اور دوسرا موت کیلئے تیاری کرنا ۔موت کو کثرت سے یاد کرنا باعث اجر وثواب ہے ،کیونکہ موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کو یاد کرنے سے دنیا کی لذتوں اور اسکی دلچسپیوں میں کمی آتی ہے اور انسان کا دل مالکِ حقیقی کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
            حضرت عطاخراسانی  فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ۖ کا ایک مجلس سے گزر ہوا جہاں سے ہنسنے کی آوازیں آرہی تھی نبی کریم ۖ نے ارشاد فرمایا کہ ''اپنی مجالس میں لذتوں کو مکدر کرنے والی چیز کا تذکرہ شامل کرلیا کرو ،صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ۖ لذتوں کو مکدر کرنے والی چیز کیا ہے؟فرمایا موت ہے ،جو گناہوں کو زائل کرتی ہے ۔اور دنیا سے بے رغبتی پیداکرتی ہے اسلئے موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔ایک موقع پر آنحضرت محمد ۖ نے ارشاد فرمایا ''اگر تم کو یہ معلوم ہوجائے کہ مرنے کے بعد تم پر کیا گزریگی تو تم کبھی رغبت سے کھانا نہ کھاؤگے اور نہ پانی پی سکو گے۔ایک حدیث میں ہے کہ اگر جانوروں کو موت کے متعلق اتنی معلومات ہو جتنی تم لوگوں کو ہیں تو تمہیں موٹا جانور کھانے کو نہ ملے۔
            ایک عورت نے حضرت عائشہ سے اپنے دل کی قساوت کی شکایت کی آپ نے فرمایا کہ موت کو کثرت سے یاد کرو انشاء اللہ دل نرم ہوجائیگا،اس عورت نے ایسا ہی کیا کچھ عرصہ بعد واپس آئی اور بتایا کہ موت کی کثرت نے میرے دل کو روٹی کے گالے کی طرح نرم کردیا ہے۔بالآخر موت کی یاد سے اللہ تعالیٰ کا خوف پیداہو تا ہے ایمان میں پختگی آتی ہے ،اصلاح کرنے میں آسانی پیداہوتی ہے۔
            آج کل انسان موت سے لاپروا ہے جسکی وجہ سے انسان کے دل میں دنیا کی محبت پیداہوئی ہے اور انسان اللہ تعالیٰ کے احکامات سے بے پرواہی کرتا ہے آج انسان اللہ تعالیٰ کے اوامر پر عمل نہ کرنے سے اور نواہی سے اجتناب نہ کرنے سے کئی طرح کے مصیبتوں میں مبتلا ہے آج انسان اپنی خواہشات کے تابع ہے ۔حدیث میں آتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پیدا کیا اور ان میں خالص عقل رکھی اور بہائم کو پیداکیا اور ان میں خالص شہوت رکھی اور بنی آدم کو پیدا کیا اور ان میں عقل اور شہوت دونوں رکھی پس جس کی عقل شہوت پر غالب آئی وہ فرشتوں سے بھی اعلیٰ اور ارفع ہے اور جس کی شہوت عقل پر غالب آگئی وہ بہائم سے بھی بدتر ہے بے شک ایسا ہی ہے آنحضرت ۖ نے حق وسچ فرمایا۔
            حدیث کا دوسرا جزء موت کیلئے تیاری کرنا ہے ،موت کیلئے تیاری یہ ہے کہ اگرایک مسلمان نے حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کوتاہی کی ہو تو آج سے اللہ کے دربار میں سچی توبہ کرے اور بندوں کو اپنا حق دیں،کیونکہ موت اچانک آتی ہے اس وجہ سے موت کے آنے سے پہلے پہلے اپنے آپ کو درست کرنا ضروری ہے۔ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
                        پچھتائے گا منزل ہے کڑی ،دیکھ کہا مان         ::          کچھ زادِ سفر باندھ لے دامان کفن میں۔
                                                                                                                                            

No comments:

Post a Comment