Saturday 27 September 2014

قربانی کا ایک فقہی جائزہ

عباداللہ)شریک دورہ حدیث(
قربانی کا ایک فقہی جائزہ

شریعت مطہرہ میں اللہ تعالیٰ عزوجل سے مال کے ذریعہ قربت حاصل کرنے کے دوطریقے ہیں ۔پہلا اپنے مال کا مالک دوسرے کو بنانا اور اسکو حوالہ کرکے اپنے ذمہ خالی کرنا،مثلاصدقات اور زکواة اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے 
ومثل الذین ینفقون اموالھم فی سبیل للہ ثم لایتبعون ماانفقوا مناولااذی لھم اجرھم عندربھم ولاخوف علیھم ولاھم یحزنون ،سورةالبقرہ۔(٢٦٢)
اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی کو اپنے مال کے ذریعے غلامی کے طوق سے آزادکرنا اور اتلاف نفس کرنا،'
' عن ابی ھریرة من اعتق رقبة مسلمة اعتق اللہ لکل عضو''
۔اب اگر قربانی کا گہری نظرسے مطالعہ کیا جائے تو یہ دونوں طبقے اس میں بدرجہ اتم موجود ہیں کیونکہ قربانی کے جانور کا خون بہانا اللہ کی رضاکیلئے اتلاف نفس میں آگیا۔اور جانور کا گوشت غریبوں اور ناداروں میں تقسیم کرناصدقہ اورخیرات کے زمرے میں آگیا۔قربانی کی حقیقت اور اس کا مقصد، 
کقولہ تعالیٰ وفدینہ بذبح عظیم (الصٰفت١٠٧)۔
حضرات صحابہ کرام  نے رسول اللہ ۖ سے عرض کیا کہ یاسول اللہ یہ قربانی کیا چیز ہے ؟تو رسول اللہ ۖنے ارشاد فرمایا سنّة ابیکم ابراہیم یہ تمہارے والد ابراہیم  کی سنت ہے ۔صحابہ کرام نے عرض کیایا رسول اللہ ہمیں اس قربانی پر کیا ملے گا؟ حضورۖ نے فرمایا ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی ۔ جانور کے پشت پر جتنے بال ہیں اتنے ہی بالوں کے برابر نیکیا ں تمہارے نامہ اعمال میں درج کی جائیں گی ۔ پھر صحابہ کرام نے فوراعرض کیا کہ یارسول اللہ ۖ اگر بال نہ ہو بلکہ اون ہو جیسے بھیڑ کی پشت پر بال زیادہ ہوتے ہیں تو حضور اقدس ۖ نے فرمایااون کے ہر بال کے بدلے میں بھی ایک نیکی ملے گی (الترعیب والتر ہیب) اس طرح اللہ تعالیٰ کا مقصد اس واقعہ سے امت مسلمہ اور امت ابراہیم کو یہ دکھاناتھا کہ دیکھو!ہمار ا نبی اپنی طبعی پدری جذبات اور اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں قربان کردیتاہے ۔اسلئے اگر تم مؤمن ہو تو تم بھی اپنے تمام جذبات کو اللہ تعالیٰ کے راستے قربان کردو،یہ جو قربانی ہے یہ درحقیقت اپنے جذبات کو قربان کرناہے یہی وجہ ہے کہ اگر آپ اللہ کے راستے میں بازار سے خرید کر دوچار من گوشت غریبوں میں تقسیم کردیں تو آپ کو قربانی کا ثواب نہیں ملے گا آپ کو گوشت تقسیم کرنے کا ثواب ملے گا۔
نصاب قربانی:جس شخص کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا انکی قیمت جو ضرورت اصلیہ سے زائد موجود ہو تو اس پر قربانی واجب ہوگی۔اگرچہ اس پر سال نہ گزرا ہو ۔امام صاحب  سونے کو چاندی کے تابع فرماتے ہیں کہ ایک تولہ سونا اور کچھ چاندی یا قیمت کیساتھ بھی قربانی واجب ہوگی جبکہ صاحبین  سونے اور چاندی کو الگ الگ نصاب فرماتے ہیں۔فتویٰ صاحبین کے قول پر ہیں کیونکہ یہ دفع خرج پر مبنی ہے جبکہ امام صاحب کا قول انفع للفقراء ہے۔
قربانی کا وقت:اسی طرح قربانی کی عبادت بھی ذوالحجہ کے مہینے میں ہی ادا ہوسکتی ہے نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد اداہوسکتی ہے اور یہ ذوالحجہ کے تین دنوں میں ہی مسنون ہے یعنی دس ،گیارہ اور بارہ تاریخ کو۔
قربانی کی دعا کا مفہوم: جانور کی قربانی کے وقت جو کلمہ پڑھا جاتاہے ،یہ بھی عجیب کلمہ ہے
 ،انّ صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ ربّ العالمین۔(الانعام ١٦٢)
ترجمہ:میری نماز ،میری قربانی ،میری زندگی ،میری موت اللہ کیلئے ہے جو دوجہانوں کا پرودگار ہے''(بیان القرآن)


No comments:

Post a Comment