Saturday 27 September 2014

تعارف


DOWNLOAD               
تعارف

ادارہ ''کاروانِ حق''اپنے تمام قارئین کا تہہ دل سے شکریہ اداکرتا ہے اور خوش آمدید کہتا ہے

"کاروان حق" جامعہ حقانیہ کے طلباء کرام کا ماہنامہ جداریہ ہے جس کے ذریعے طلباء جامعہ اپنی  قلمی وادبی صلاحتیوں کو  اجاگر کرتے ہیں یہ ماہنامہ اساتذہ کے زیر نگرانی شائع کیا جاتا ہے
 email: jamiahaqqani@gmail.com

ابتدائی کلمات

ابتدائی کلمات

از

شیخ الحدیث حضرتمولانا محمد انوارالحق حقانی صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ
مرکزی نائب صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
ونائب مہتمم جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک

            عصر حاضر میں صحافت اشاعت دین کیلئے سب سے مؤثر ،اور مثبت ذریعہ ہے۔آج مسلم دنیا بالعموم اور ہمارے دینی مدارس بالخصوص اس فن میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لے رہے …جس کی وجہ سے وہ آئے روز ہمارے مذہب اور دین پر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافت کے ہتھیار کو استعمال کرکے ان بے دینوں کا علمی تعاقب کیا جائے اور مسلمانوں کی صحیح اور درست علمی وفکری رہنمائی کی جائے۔
            مقام شکر ہے کہ دارالعلوم حقانیہ کے چند ہونہار طلباء نے طلباء کرام میں علمی،ادبی اور صحافتی ذوق کو پروان چڑھانے کیلئے اردو اور عربی جداری جریدے کا اجراء کیا ہے ۔
            اللہ تعالیٰ ان کی محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول ومنظور فرمائیں۔

والسلام

(شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد انوارالحق صاحب مدظلہ)

اٹھ کر اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے

            مدیر کے قلم سے…

اٹھ کر اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
      
      علماء انبیاء کے وارث ہیں ،وراثت کا حق اداکرتے ہوئے جب بھی دین کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ان کا مقابلہ کیا اور دین پر آنچ نہ آنے دی۔چنانچہ جب یونانی ملحدین فلسفہ کے زور سے اللہ کی ذات کا انکارکرنے لگے اور منطق کے انداز میں صغری، کبریٰ ملا کر وحدت الوجود کو رد کرنے لگے تو اس وقت کے علماء کرام نے منطق اور فلسفہ کی اشد ضرورت محسوس کی اور ان علوم کو ایسا ازبر کیا کہ وہ لوگ دھنگ رہ گئے ۔مختصر یہ کہ ان کے استدلات انہیں کے انداز میں ایسے رد کردیئے کہ دل داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا اور اسلامی عقائد پر آنچ نہ آنے دی۔
            موجودہ دور کا اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اہل باطل مختلف طریقوں سے دین اسلام پر حملہ آورہورہے ہیں ۔اور مختلف زاویوں سے ان کو کھوکھلاکرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔جس میں سب سے ذیادہ طاقتور میڈیا کا میدان ہے ۔ میڈیاکامہار یہود ونصاریٰ اور ان کے ایجنٹوں کے پاس ہے۔ یہ مسلمانوں کے اندر خلفشار پیدا کرنے ،ان پر اپنا شکنجہ مضبوط کرنے اوران کو اپنا غلام بنانے کابہت ہی آسان راستہ ہے،چنانچہ جب بھی طاعوتی قوتیں کوئی اپنا ٹوٹکاازمانے کا تجربہ کرتی ہیںتو اول میڈیا کو رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے بروئے کار لاتی ہیں ۔ یہ لاٹھی کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔چنانچہ جس کی لاٹھی اس کی ہی بھینس ہوتی ہے۔
            میڈیا کی ایک شاخ تحریر وتصنیف بھی ہے۔جس کو پرنٹ میڈیا کے نام سے جانا جاتاہے یہ بھی اسلام کے خلاف سازشوں میں کسی سے پیچھے نہیں ہے یہ بھی اھل باطل کے نظر کرم پر ہی چل رہا ہے۔اور جو لوگ اس میدان میںمصروف عمل ہے اکثر یت ان میں ایسے ہیں ۔ جن کے قلموں کی  سیاھی اغیار فراھم کررہے ہیں اس میدان میں بھی اھل باطل کا راج ہے اور آئے روز اسلام پر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں۔
            اب ہمار االمیہ یہ ہے کہ باطل کے مقابلے میں ہر میدان میں ہمارے علماء کرام پیش پیش نظر آینگے لیکن تحریر و تصنیف ،پرنٹ اور الیکٹر انک میڈیا میں آٹے میں نمک کے برابر بھی آپ کو نہیں ملیںگے۔اس میں جتنا زیادہ اہل باطل کا عمل ہے اتنا ہی کم ہمار اردعمل ہے کیونکہ وہاں دیندار طبقہ موجو د نہیں ۔ براتو  برا ہے لیکن اگر علمائے کرام کوئی اچھا کام بھی سر انجام دے تو اس کو گول مول کرکے ایسے انداز میں پیش کرتے ہیں کہ بد سے بدتر ین بنادیتے ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ وہاں مستشرقین اور یہود ونصریٰ نے ٹھیکے جمارکھے ہیں جن کو داڑھی ،پگڑ ی اور مدارس مزاق نظر آرہے ہیں ۔چنانچہ ان ہی لوگوں نے دینی طبقے کو دہشتگردکے لبادے میں پیش کیا اور جو بھی اسلام کا نام لیتاہے ان کو انتہا پسند کا جامہ پہنایا ۔او رکسی ایک دن بھی میڈیا پر آپ کو ایسی خبر نہیںملی گی جو دینی طبقے کیلئے حو صلہ بخش ہو بلکہ ان کو بد نام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں ۔
            اگر ہم نے ابھی بھی اس خلا کو پورانہیں کیا ۔اور ماضی کے تلخیوں سے سبق حاصل نہیں کیا ۔اور خارش کے مریض کی طرح ان سے کنارہ کش رہے تو کچھ دور نہیں کہ اپنے ہی لوگ ہمیں چھوڑ جائینگے اسلئے ہمیں چاہیے کہ جدید تقاضوں کو سمجھے اور ان کے مطابق اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر یہود و نصاریٰ اور ان کے ایجنٹو ں کی سازشوں سے اپنی تہذیب وتمدن کا دفاع کریں۔تو جس طرح جامعہ حقانیہ دین کے شعبوں میں مصروف عمل ہے اسی طرح تحریر کے میدان میں بھی طلبہ کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کیلئے ماہنامہ کاروان حق کا انتظام کیا ہے ۔لہذا طلبہ کرام سے درخواست کی جاتی ہے۔کہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنے مضامین سے کاروان حق کو رونق بخشیں۔


اٹھ کر اب بزم جھان کا اور ہی انداز ہے             مشرق اور مغرب میں تیرے ہی دور کا انمازہے۔

دیوبند ثانی

                                                                                                                                ابن نصیب خان جلالی(شریک دورہ حدیث)

دیوبند ثانی
            
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔اسلام نے اسلامی تعلیمات (علوم نبویہ) کے حصول پر بہت زور دیا ھے ۔آپ نے

اطلبواالعلم من المہد الی اللحد……طلب العلم فریضة علیٰ کل مسلم۔

ارشاد فرماکر ان علوم کے حاصل کرنے کی ترغیب دی ۔اور کہیں پر العلماء ورثة الانبیاء ''کہہ کر ان علوم کا ثمرہ بتا یااور ان علوم ہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کی تقسیم کی اور فرمایا'

'قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون'

'۔یعنی اس علم کی وجہ سے عالم کو دوسرے لوگوں پر اس طرح فوقیت حاصل ہے جس طرح چاند کو ستاروں پر۔
            ان علوم نبویہ کے حصول کیلئے مختلف اسباب /طرق ہوتے ہیں ۔اور ان میں ایک سبب /طریقہ مدارس ہیں۔اگر یہ سلسلہ آپ کے زمانے میں اصحاب الصفہ کی شکل میں موجود تھا تو آج دارالعلوم حقانیہ کی صورت میں زندہ وتابندہ ہے ۔جامعہ دارالعلوم حقانیہ کی بنیاد ١٩٤٧ء کو شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق صاحب نے رکھی اور اب ایک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی شکل اختیارکرگئی ہے۔
            جامعہ ھذا نے علوم نبویہ کیساتھ ایسی شخصیات بھی امت مسلمہ کو مہیا کئے ہیں جو معاشرہ میں اسلامی تعلیمات کی صحیح ترجمانی کررہے ہیں ۔اور اس کے سا تھ ہیص ہر قسم کے اسلامی شعبوں کیلئے مضبوط رجال باکردار فراہم کئے ہیں۔اگرمیدان سیاست میں امت مسلمہ کی حقوق کی جنگ لڑنے والا اور مدارس دینیہ کا محافظ بن کرکھڑا ہے تو حقانیہ کا سپوت مولانا فضل الرحمن صاحب کی شکل میں ہے۔ اس پُرفتن او دجالی میڈیا کی دور میں عمرفاروق اور عمر بن عبدالعزیز کی جھلک دکھانے والا افغانستان کا بت شکن امیرالمؤمنین ملامحمد عمر مجاہد حفظہ اللہ بھی حقانیہ کا فرزند ارجمند ہے۔اگر باطل قوتوں کیساتھ افغانستان کے محاذوں پر اسلام کا جھنڈا لہرانے والا ہے تو وہ بھی حقانیہ کا فاضل ہی ہے۔اگر علمی کارناموں کی طرف دیکھاجائے تو سب سے خوشبودار پھول شیخ الحدیث مولاناسمیع الحق صاحب مدظلہ کی شکل میں نظر آتا ہے ،فتاویٰ حقانیہ اور فتاویٰ فریدیہ کی تصنیف جامعہ کی وجود مسعود ہی کی وجہ سے معرض وجود میں ائی ہیں۔

            الحمد للہ آج یہ ادراہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہاہے اور اسکی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔

کچھ علمِ معقولات کے بارے میں

خاکپائے اسلاف جواد علی شاہ )شریک دورہ حدیث (

کچھ علمِ معقولات کے بارے میں
           
            اللہ تعالیٰ کا عجیب نظام دنیا میں رہا ہے کہ ہر دورمیں دین متین کی خدمت جن اہل علم حضرات نے کی ہے تو اللہ تعالیٰ نے انکو اہل زمانہ پر برتری اور ایک نمایاں مقام دیا ہے چاہے یہ خدمت براہ راست قرآن وسنت کی ہو جیسے صحابہ کرام  اور تابعین عظام نے اس فریضہ کو پایا تکمیل تک پہنچایا ۔اور چاہے یہ خدمت اُن علوم وفنون کی ہو جو قرآن وسنت کیلئے علم آلیہ کی حیثیت رکھتے ہیں،اسلئے یہ دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم کا درجہ رکھتی ہیں۔
            پھر یہ علوم آلیہ علوم وفنون کا ایک وسیع میدان ہے جس کا ایک شجر اخضر علم المعقولات ہے۔جو قرآن وسنت کے لئے ایک آلہ ہے اور رضا الہی کا سبب ہے جیسا کہ حضرت تھانوی فرمایا کرتے تھے کہ ہم تو جیسے بخاری کے مطالعے میں اجر سمجھتے ہیں میرزاہد اور امور عامہ کے مطالعے میںبھی ویسا ہی اجر سمجھتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ نیت صحیح ہو .
            بہرحال علم المعقولات ایک ایسا علم ہے جو کہ ہر دور میں مخدوم رہا ہے اور مخدومیت کی وجہ ظاہر ہے کہ ہر دور میں علماء اور فضلاء نے اپنی زندگی کی بہاریں اس علم کی خاطر خزائوں میں بدل دی ہیںاور اس کی نظیر علامہ فخرالدین  رازی اور حجة الاسلام امام غزالی جیسے نابغہ روزگار شخصیات ہیں امام رازی نے تفسیر کبیر لکھ کر امت پر ایک بڑا احسان کیا اور امام غزالی  نے تہا فة الفلاسفہ لکھ کر فلاسفہ کے بیہودہ عقائد کی جڑاُکھاڑ دی لیکن دور نہیں، قریب زمانے میں ہندوستان کے مدارس پر نظر ڈالیں تو دیوبند ،رامپور ، سہارنپور ،لکھنو ،خیرآباد اور دہلی کے علاوہ بیسوں مدارس میں آپ کو علم المعقولات نصاب کا ایک جزئِ لازم نظرآئیگا،اوریہ وہ نصاب ہے جو نظام الدین نے لکھنو کے فرنگی محل میں طلباء کیلئے منتخب کیا تھا اور پھر غالباً یہ سارے ہندوستان میں ایک عام نصاب بنتا چلاگیا اور اسی نصاب کے بدولت اللہ تعالیٰ نے ایسے عباقرہ پیداکئے جو سارے ہندوستان میں فرق باطلہ کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار تھے… بہرحال علم المعقولات سارے مدارس میں تاج عروس کی حیثیت رکھتا تھا،چنانچہ مناظر احسن گیلانی  جب دیوبند میں داخلے کیلئے تشریف لائے تو خود اپنا قصہ بیان کرتے ہیں کہ غالباً چھوٹی سی دستی میز پر کتاب تھی ،یہ میرزاہد رسالہ تھا ،شاہ صاحب نے کتاب کھولی اوریتحقق کل فرد بعد ''تحقیق الموصوف'کے الفاظ سے العلم المتجردکی تعریف میرزاہد نے جو کی ہے دریافت فرمایا کہ اس عبارت کا مطلب بیان کرو۔اسی طرح مولانا خان بہادر مارتونگی جب دیوبند داخلے کیلئے تشریف لے گئے تو فرماتے ہیں ''حضرت شاہ صاحب نے قاضی مبارک میں تشکیک کے بحث میں بہت مشکل مشکل سوالات کئے ۔ الغرض علم المعقولات ہمارے اسلاف کی میراث ہے اور اسکی افادیت جس طرح پہلے تھی اسی طرح آج بھی ہے بلکہ آج کل تو اسکے پڑھنے کی اشد ضرورت ہے اسلئے کہ فرق باطلہ کے عقائد کو رد کرنا استدلالِ عقلی  سے ہوتا ہے اور وہ علم المعقولات کے بغیر دشوار ہے چنانچہ حضرت نانوتوی جب برکات احمد ٹونکی کو دعا دیتے تھے توفرماتے تھے ''اللہ تعالیٰ اس کو علم المعقول میں ترقی عطا فرمائے پھر اس کی وجہ بیان فرمائی کہ دین پر قائم رہنا علم معقول حاصل کئے بغیر دشوار ہے۔
            لہذا آج کے علم کی فضا ''جو کہ علم المعقول کے خلاف ہے ''کو ختم کرکے اس کو سیکھنا چاہئے اور دوسروں کو بھی سکھانا چاہئے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ وفہم عطا فرمائے۔اٰمین
                                                                                                            

امت مسلمہ کے زوال کے اسباب

حزب اللہ جان پشاوری(موقوف علیہ)
امت مسلمہ کے زوال کے اسباب
         
   پورے عالم میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کے متبعین ہر زمانہ اور ہردور میں بلندوبالا رہے ہیں ۔جس طرح یہ دین اعلیٰ وارفع ہے اسی طرح اپنے متبعین کو اعلیٰ وارفع بلند وبالا بناتا ہے ۔امت کے جس طبقے نے جس دور میں بھی دین(اسلام) پر عمل کیا تو وہ سرخرو ہوئے ،کامیابی نے انکے قدم چومے پانی نے ان کو راستہ دیا،درندہ جانوروں نے ان کا پہرہ دیا حتی کہ کائنات کا ذرہ ذرہ ان کے تابع ہوا اور انکے اشاروں پر چلنے لگا دنیا کی کوئی طاقت ان پر غالب نہ آسکی چاہے وہ طاغوتی طاقتیں کتنی ہی بڑی تعداد میں کیوں نہ تھی اور کتنی ہی فوجی سہولیات سے لبریز ،اسلحے کے تمام انواع سے لیس کیوں نہ تھیں جبکہ اس کے برعکس مسلمان مٹھی بھر،بغیر خوراک واسلحہ کے ،بغیر توپ ،ٹینک اور تلوار کے ،بغیر بحری بیڑوں اور سواریوں کے حتی برھنہ پا ہوتے ہوئے بھی اتنی بڑی بڑی فوجوں ،سامراجی حکومتوں اور طاغوتی قوتوں پر غالب آئے ہیں ،فتح وکامرانی نے انکے قدم چومے ہیں ،ہر نشیب وفراز نے ان کو سلام پیش کیا ہے اور ہر اونچا سر ان کے سامنے سرنگوں ہواہے۔
            لیکن افسوس صدافسوس!آج دین وہی دین ہے ،اسلام وہی اسلام ہے اللہ وہی اللہ ہے ،تو پھر کیوں یہ امت غیروں کے سامنے ذلیل وخوار ہے ، زندگی کے ہر موڑ پر ناکامی ان کا مقدر کیوں بن چکی ہے انکے سر سرنگوں ہیں ان کی عزتیں تارتار ہوچکی ہیں ۔غلامی کے طوق ان کے گلوں میں لٹک رہے ہیں ، آخر اتنی بڑی بے غیرتی وبے ہمتی آج اس امت کا لباس کیوں بن چکی ہیں ،کیا اللہ بدلا …یا اس کا قانون بدلا…یا اس کا دین بدلا…؟؟نہیں نہیں بلکہ ہر گز ایسا نہیں ہے اللہ وہی اللہ ہے اسلام وہی اسلام ہے ،قانون وہی قانون ہے اگر بدلا ہے تو مسلمان بدلا ہے اگربدلی ہے تو امت بدلی ہے اور یہی اس امت کے زوال کا سب سے بڑا سبب ہے ۔اسی تغیر وتبدل کے چنداسباب ذیل میں ذکر کئے جارہے  ہیں…
(١)       امت کے زوال کے اسباب میں سے ایک امت کا ٹوٹنا اور مختلف جماعتوں میں بٹنا ہے آئے دن ایک نہ ایک جماعت بنتی ہے جو حق کا دعویٰ کرتی ہے اور دوسروں پر تردید وتنقید ۔اور ظاہر ہے کہ آپس کے اختلافات ،عدم اتفاق اور دھڑا بندی سے وہ مثالی جماعت جو نبی علیہ السلام نے امت کو امت بنانے کیلئے دی تھی ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے باقی نہ رہی۔
(٢)      دوسرا بڑا سبب دین سے دوری اور غیروں بالخصوص مغربیت سے دوستی ہے ،دین پر عدم اعتمادی ،اللہ تعالیٰ سے مایوسی اور مال واسباب پر یقین نے ان کو پاؤں تلے روند ڈالا،وسائل قدرت کے پیچھے لگنے کی وجہ سے قدرت ہی ہاتھ سے نکل گئی اور وسائل بھی نہ ملے۔
(٣)     تیسرابڑا سبب اپنے اس کا م کو چھوڑنا ہے جو من حیث الامة ان کو ملاتھا اور جس پر خلا فت ونصرت کے وعدے تھے اور وہ ہے دین پر مضبوطی سے قائم رہنے کیساتھ اس کی ترویج واشاعت کرنا اور اشاعت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا چاہے جان سے ہو یا مال سے ہو یا اولاد سے ہو۔

            الغرض جب تک ہر ہر فرد اجتماعی طور پر اتفاق واتحاد کو قائم کرنے،دین پر عمل کرنے کیساتھ اس کی مسلسل اشاعت میں حائل رکاوٹوں کو دورکرنے اور اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ۖ کی تعلیمات پر ایمان ویقین رکھنے کیساتھ عملی قدم نہ اٹھائے تو یہ امت امت نہیں بن سکتی اور نہ نصرت وخلافت آسکتی ہے ورنہ اسی اللہ تعالیٰ کے حکم سے کائنات میں وہی ہوگا جو امت چاہیگی۔

جامعہ حقانیہ کے اوصاف

محمد قاسم) موقوف علیہ(
جامعہ حقانیہ کے اوصاف


            برصغیر کی سطح پر اللہ تعالیٰ نے جامعہ دارالعلوم حقانیہ کو امتیازی خصوصیات سے نوازا ہے اسکے فضلاء ہر میدان میں (دین کے ہر شعبے )میں مصروف عمل ہیں ۔چاہے میدانِ جہاد ہو جیسے کہ امیرالمؤمنین ملامحمد عمر مجاہد حفظہ اللہ اور مولانا جلال الدین حقانی حفظہ اللہ تعالیٰ وغیرہ ۔یا چاہے سیاست کے میدان میں موجودہ دور کے قائدین کے کارنامے اظہر من الشمس ہے ۔اسی طرح اور شعبوں میں بھی جامعہ حقانیہ کے فضلاء آگے آگے ہے۔یہ اوصاف اللہ تعالیٰ نے جامعہ کو کس وجہ سے دیئے ہیں یہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق صاحب کی اخلاص،خدمات ،ادب واحترام اور دعاؤں کا نتیجہ ہے اللہ تعالیٰ انکو کروٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب کریں۔آج الحمد للہ جامعہ روز بروز ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔اور جامعہ کے مشائخ واساتذہ کرام کا کردار اوراوصاف بندہ اپنی ناقص زبان سے ادا نہیں کرسکتا کیونکہ یہ حضرات بلند شان اور مرتبے والے ہیں۔ہر استاد ہر فن میں عملی کام کررہا ہے خاص کر تصنیف کے میدان میں،اور اسی طرح تعلیم وتعلم میں بھی بے مثال ہیں ،جب بھی سبق پڑھاتے ہیں گویا کہ اُن کے منہ سے جواہرنکلتے ہیں ،اور سارا دن تدریسی مشاغل میں مصروفیت کے باجود تصنیفی خدمات بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔اور تمام اساتذہ کرام سادہ مزاج ہے جب بھی ملنے کو دل چاہے ملنے سے انکار نہیں کرتے ۔حقانیہ کے مشائخ اسلاف کا نمونہ ہیں جیسا کہ اکابرینِ دیوبند صحابہ  کا نمونہ تھے اور جس طرح ہر ایک کی تاریخ دوسرے سے ممتاز ہوتی ہے اسی طرح ہمارے اساتذہ کرام ایسے اوصاف کے حامل ہیں کہ ہر ایک کی خوشبو دوسرے سے جدا اور دلفریب ہے۔اور یہ ان اساتذہ کرام کی کرامت ہے کہ ہر سال جامعہ سے اتنے فضلاء کرام فارغ التحصیل ہوتے ہیں کہ جتنا برصغیر کے کسی بھی مدرسے(بشمول دارالعلوم دیوبند) فارغ التحصیل نہیں ہوتے ہیں۔ہم اس پر فخر کرتے ہیں کہ دارالعلوم حقانیہ کے اساتذہ کرام تمام عالم اسلام کے لئے بادل کے مانند ہیں اور ہم ان کے لئے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ جامعہ حقانیہ کے شیوخ کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھیں اور جامعہ حقانیہ کو تاقیامت قائم ودائم رکھیں اور ہر قسم کے شر سے اللہ تعالیٰ اسکی حفاظت فرمائیں۔