جاوید
اقبال )موقوف علیہ(
حقوق الوالدین
اللہ تعالی نے انسانوں پر حد سے زیادہ انعامات
کیئے ہیں ارشاد گرامی ہے
وان تعدوا نعمة اللہ لا تحصوہا
کہ
اگر آ پ ہماری نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو آپ اسکے شمار سے عاجز ہونگے کیونکہ جب
انسان ذی عقل سمجھدار ہو تو وہ یہ سمجھے گاکہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو پیدا کیا یعنی
عدم سے وجود میں لایا پھر مسلمان پیدا کیا اور پھرا مت محمدیہ میں پیدافرمایا
یقینا یہ تمام انعامات ہیں لیکن ان نعمتوں میں سے ایک نعمت والدین بھی ہیں انکی
نافرمانی یقینا گناہ کبیرہ ہے جیسا کہ حدیث مبارک میں وارد ہے کہ الکبائر:
الاشراک باللہ وحقوق الوالدین وقتل النفس
،
کبائر گناہیں اللہ تعالیٰ کیساتھ ذات وصفات میں کسی کو شریک ماننا اور والدین کی
نافرمانی کرنا اور قصدا عمدا کسی شخص کو قتل کرنا۔
قرآن وحدیث میں
بہت سی آیات اور احادیث اسکی تائید کرتی ہیں ان میں سے
ایک آیت ہے جو اوپر مذکور ہے اس میں ایک آیت ،
الاتعبدواالاایاہ وبالوالدین احسانا
،کہ
اللہ تعالیٰ کی عبادت کروگے اور والدین کیساتھ حسن سلوک اور احسان کروگے۔اللہ
تبارک وتعالیٰ نے پہلے عبادات اور بندگی صرف معبود واحد لاشریک لہ ، کہ وہ اللہ ہے
کیلئے کرنے کی ترغیب دی پھر متصلا والدین کیساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا کہ عبادت
اور بندگی کے بعد والدین کی اطاعت بھی ایک امر وجوبی ہے کیونکہ اسکو رسول اللہ ۖ
نے الکبائر فرمایاہے اور کبائر (گناہ کبیرہ) سے جان بچانا واجب ہے اور گناہ کبیرہ
کا مرتکب عاصی اور گنہگار ہے پھر دوسری جگہ قران مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسان
پراسکی ماں کا اسے پیٹ میں لیے پھرنے کا ذکرفرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ۔کہ
ووصیناالانسان بوالدیہ حملتہ امہ وھنا علی وھن و فصالہ فی عامین ان ا شکرلی ولوالدیک و الی المصیر،
کہ انسان جب ماں کے پیٹ میں تھا تو ماں
کی مشقت اور اسکی تکلیف کا ذکر فرماتے ہوے انسان کو اسکی اطاعت پر برانگیختہ کیا
کہ آپ پر والدین کے بہت حقوق ہیں من جملہ ان میں سے ایک حمل بھی ہے اور بچپن میں
آپکے ساتھ احسانات کرنابھی ہے۔
دوسری آیت ہے
فلاتقل لھما اف ولاتنھر ھما،الایة
،کہ آپ اپنے والدین کو اف قدر بھی نہ
کہنا اور نہ انکی رسوائی کرنا بلکہ انکے ساتھ ادب سے بات کرنا اس آیت مبارک میں
علماء اصولین فرماتے ہیں کہ والدین کو لفظ اف کہنا حرام ہے اسلئے کہ اس میں والدین
کو تکلیف ہوتی ہے پس ہر وہ کلمہ جس سے والدین کو ایذ اء وتکلیف ہو تی ہے وہ حرام
ہے جیسے،رسوا کرنا، شرمندہ کرنا ،گالی دینا ،مارناوغیرہ وہ سب کے سب حرام ہیں ۔
یقینا والدین نعمت ہیں انکی قدر انسان
کو اس وقت محسوس ہو تی ہے جب وہ نہ ہوں وفات پا چکے ہوں۔بہت سے احادیث انکے خدمت
کے بارے میں وارد ہوئے ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ
رضی الرب فی رضی الوالد وسخط الرب فی سخط الوالد
۔کہ اللہ تعالیٰ کا راضی
ہونا والد کے راضی ہونے میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی نا خوشی والد کی ناخوشی میں ہے۔
دوسری حدیث میں ہے کہ عبداللہ ابن
مسعود نے عرض کیا یارسول اللہ سب سے بڑھ کرعمل کونسا ہے ؟فرمایا نماز پڑھنا اپنے
وقت پر، پھر انھوں نے عرض کیا :پھر
کونساعمل افضل ہے ؟رسول اللہ ۖ
نے فرمایا کہ والدین کی خدمت ،انھوں نے عرض کیا پھر کونسا عمل ؟آپ ۖ
نے فرمایاجہاد فی سبیل اللہ ۔
اس حدیث مبارک سے صاف معلوم ہوتا ہے
کہ والدین کی خدمت کرنا اور انکے ساتھ نرم کلامی اور حسن سلوک یہ یقینا اللہ
تعالیٰ کی رضاکی علامت ہے اور جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے اور انکی نافرمانی اور
انکے ساتھ تلخ کلامی ظلم وستم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور دنیا اورآخرت میں ذلت
ورسائی کاذریہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کی فرمانبرداری اور اطاعت نصیب
فرمائیں ،اور عمل کی توفیق دیں۔آمین۔